صلیبی جنگیں

صلیبی جنگیں (Crusades)تاریخ کا ایک طویل جنگی سلسلہ تھا ، جو 1095 ءمیں  شروع ہوا، اوروقفہ وقفہ سے 1291 ءتک جاری رہا۔اس زمانے میں  بیت المقدس کا علاقہ مسلم حکومت کے ماتحت تھا۔ اس علاقے کو مسیحی لوگ مقدس علاقہ (holy land) کہتے ہیں۔ یہ علاقہ پہلےرومی سلطنت میں  تھا، اس کے بعد عمر بن خطاب کے زمانے میں  وہ مسلم سلطنت میں  شامل ہوا۔

صلیبی جنگوں کے موقع پر تقریبا ًپورے مسیحی یورپ نے مل کر حملہ کیا، تاکہ وہ اس مقدس علاقے کو دوبارہ اپنے قبضے میں  لے سکیں۔ مگر متحدہ کوشش کے باوجود اس محاذ پر ان کو کامل شکست ہوئی۔ اس واقعے کو مورخ گبن نے ذلت آمیز شکست (humiliating defeat) قرار دیا ہے۔

مگر تاریخ کا یہ انوکھا واقعہ ہے کہ صلیبی جنگوں میں  شکست کے بعد مغرب کی مسیحی قوموں نےہار نہیں مانی، بلکہ ان کے اندر ایک مثبت اسپرٹ جاگ اٹھی۔ انھوں نے صلیبی جنگوں میں  شکست کے بعد اپنے میدان عمل کو بدل دیا، اور جنگ کے میدان کے بجائے پر امن تحقیق کو اپنا میدان بنا لیا۔ ایک مبصر نے اس کو اسپریچول کروسیڈس(spiritual crusades) کا نام دیا ہے۔

اس پر امن کروسیڈس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغرب کے مسیحی اہل علم تاریخ میں  ایک نیا دور لانے میں  کامیاب ہوگئے۔ یہ وہی دور ہے جس کو scientific age کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنی ساری توجہ فطرت (nature)کی تحقیق پر لگا دی۔ اس کے نتیجے میں  فطرت کے اندر چھپی ہوئی ٹکنالوجی پہلی بار انسان کے علم میں  آئی۔ اسلام نے اعلان کیا تھا کہ نیچر پرستش کا موضوع نہیں ہے، بلکہ وہ تحقیق کا موضوع ہے (الجاثیۃ،45:12-13)۔ اس طرح اسلام نے فطرت اور پرستش دونوں کو ایک دوسرے سے نظری طور پر ڈی لنک (delink) کردیا تھا۔ اس سلسلے کا اگلا کام مغرب کی مسیحی قوموں نے کیا ۔ انھوں نے  فطرت کی آزادانہ تحقیق شروع کی۔ یہاں تک کہ آخر کار سائنس کا دور پیداہوا، اور پھر وہ چیز ظہور میں  آئی جس کو جدید تہذیب کہا جاتا ہے۔

  مسیحی یورپ کا یہ عمل ری پلاننگ کی ایک مثال ہے۔ مسیحی یورپ نے پہلے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ وہ جنگ کی طاقت سے ارض مقدس پر قبضہ حاصل کریں۔ دو سوسال کی جنگ کے بعد جب یہ منصوبہ ناکام ہوگیا تو ان کے اندر یہ ذہن پیدا ہوا کہ وہ جنگ کے میدان کے بجائے پرامن میدان میں  اپنی کوشش صرف کریں۔ یہ ری پلاننگ کامیاب رہی، اور چند سوسال کی مدت میں  صرف یہ نہیں ہوا کہ ایک نیا سیاسی دور وجود میں  آگیا، بلکہ یہ ہوا کہ مسیحی یورپ نے نئے وسائل کے استعمال سے دوبارہ اس غلبہ کو زیادہ بڑے پیمانے پر حاصل کرلیا ، جو سیاسی میدان میں  ناکامی سے کھویا گیا تھا۔

اس علاقے کے مسلم رہنما اُس وقت اپنے معاملے کی ری پلاننگ نہ کرسکے، 1947 میں  جب فلسطین کی تقسیم عمل میں  آئی، اور اس میں  فلسطین کا نصف حصہ عربوں کو دیاگیا ۔ عرب رہنما کے لیے بھی یہ ایک ری پلاننگ کا وقت تھا۔ ان کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے پچھلے سیاسی مائنڈ سیٹ کو توڑیں، اور نئے حالات کے لحاظ سے اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کریں۔ اگر وہ ایسا کرتے تو یقیناً آج فلسطین میں  ایک طاقت ور سلطنت قائم ہوتی۔ فلسطین کا جو علاقہ عربوں کے قبضے میں  دیا گیا تھا، وہ فلسطین کا سب سے زیادہ اہم علاقہ تھا۔ نیز شام اور عراق اوراردن اور مصر پہلے ہی سے ان کے قبضے میں  تھے۔

 یہ پورا علاقہ ایک تاریخی علاقہ ہے۔ یہ علاقہ عالمی سیاحت کے لیے بہت زیادہ ٹورسٹ اٹریکشن (tourist attraction) رکھتاہے۔ اگر اس علاقے میں  امن قائم رہتا تو سیاحت کی انڈسٹری بہت زیادہ فروغ پاتی۔ اس سے عربوں کو نہ صرف اقتصادیات کے اعتبار سے غیر معمولی فائدے حاصل ہوتے، بلکہ سیاحوں کی آمد و رفت سے اس علاقے میں  دعوتی مشن کا کام بھی بہت بڑے پیمانے پر ہوسکتا تھا۔ مگر ری پلاننگ کی اہمیت کو نہ جاننے کی وجہ سے یہ عظیم موقع استعمال نہ ہوسکا۔حسن البناء اور عرب کےدوسرے مسلم رہنماؤں نے15دسمبر 1947 میں  قاہرہ میں  بہت بڑا جلسہ کیا تھا۔ اس میں  تقریر کرتے ہوئے حسن البناء نے کہاتھا:لبیك فلسطین ۔ اگر وہ دانش مندی سے کام لیتے تو وہ لبیك ایها الناس کے نعرے کے ساتھ اس علاقے میں  داخل ہوتے، اور یہاں اسلام اور مسلمانوں کا نیا مستقبل تعمیر کرسکتے تھے۔ مگر یہ عظیم موقع استعمال ہونے سے رہ گیا۔   

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom