حدیبیہ کا منصوبہ

رسول اور اصحاب رسول نے نبوت کے تیرھویں سال مکہ کو چھوڑ دیا، اور مدینہ کو اپنا مرکز عمل بنا لیا۔ لیکن مکہ کےسرداروں کو یہ بات منظور نہ تھی۔ اب انھوں نے یہ کوشش شروع کی کہ مدینہ پر حملہ کرکے نبوت کے مشن کا خاتمہ کردے۔ اس کے نتیجے میں  چند غزوات پیش آئے۔ مثلا ً غزوۂ بدر، غزوۂ احد، وغیرہ۔ ان حملوں کی وجہ سے پیغمبر اسلام کو یہ موقع نہیں مل رہا تھا کہ وہ پر امن حالات میں  اپنے مشن کو جاری رکھیں۔

اس کے بعد پیغمبر اسلام نے ایک نیا منصوبہ بنایا۔ ہجرت کے چھٹے سال آپ نے یہ اعلان کیا کہ آپ عمر ہ کے لیے مکہ جائیں گے۔ ایک ہزار چار سو صحابی اس سفر میں  آپ کے ساتھ شامل ہوگئے۔ یہ قافلہ جب حدیبیہ کے مقام پر پہنچا جو مدینہ اور مکہ کے تقریباً درمیان میں  واقع ہے۔مکہ کے سرداروں کو خبر ہوئی تو انھوں نے اپنے کچھ لوگوں کو بھیجا کہ وہ محمد اور آپ کے اصحاب کو روکیں، اور یہ بتائیں کہ ہم مکہ میں  آپ کا داخلہ نہیں ہونے دیں گے۔ اس کے بعد حدیبیہ کے مقام پر دونوں فریقوں کے درمیان گفت و شنید (negotiation)شروع ہوئی۔ یہ گفت و شنید تقریباً دو ہفتہ جاری رہی۔ اس گفت و شنید کے نتیجہ میں  فریقین کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کو معاہدۂ حدیبیہ (Hudaibiyah Agreement)کہاجاتا ہے۔ اس معاہدہ کے تحت دونوں فریق اس پر راضی ہوئے کہ ان کے درمیان دس سال تک کوئی لڑائی نہیں ہوگی۔ اس طرح یہ معاہدہ گویا دس سال کے لیے ناجنگ معاہدہ (no-war pact) تھا۔ اس معاہدہ کے تحت پیغمبر اسلام کو یہ موقع مل گیا کہ وہ پر امن حالات میں  اپنے مشن کی منصوبہ بندی کریں، جو آخر کار قرآن (48:1)کے الفاظ میں  فتح مبین تک پہنچا ۔

تاریخ بتاتی ہے کہ حدیبیہ کا معاہدہ یقیناً فتح مبین (clear victory) کا معاہدہ تھا۔ لیکن یہ معاہدۂ امن کس طرح واقعہ بنا۔ وہ اس وقت واقعہ بنا جب کہ پیغمبر اسلام نےفریق ثانی کی تمام شرطوں کو یک طرفہ طور پر تسلیم کرلیا۔

   فریقِ ثانی کی شرطوں کو یک طرفہ طور پر مان لینے کی آخری حد یہ تھی کہ جب معاہدہ لکھا جانے لگا تو اس پر یہ الفاظ لکھےگئے:هذا ما صالح عليه محمد رسول الله ۔ فریق ثانی کے نمائندہ نے اعتراض کیا کہ ہم آپ کو رسول نہیں مانتے ، آپ لکھیے محمد بن عبد اللہ ۔ پیغمبر اسلام نے اس مطالبہ کو بلابحث مان لیا، اور حکم دیا کہ معاہدہ کے کاغذ پر لکھا جائے:امح يا علي واكتب:هذا ما صالح عليه محمد بن عبد اللہ (مسند احمد، حدیث نمبر3187) ۔

معاہدہ حدیبیہ کے بعد حالات میں  انقلابی تبدیلی ہوئی۔ یہاں تک کہ دوسال کے اندر مکہ جنگ کے بغیر فتح ہوگیا— معاہدۂ حدیبیہ اس حقیقت کا اعلان ہے کہ اگر تم فتح چاہتے ہو تو پہلے اپنی شکست کو تسلیم کرو، اگر تم آگے بڑھنا چاہتے ہو تو پہلے پیچھے ہٹنے پر راضی ہوجاؤ، اگر تم چاہتے ہو کہ رسول اللہ کا ٹائٹل صفحۂ عالم پر لکھا جائے تو بوقت ضرورت تم اس کو کاغذ پر مٹانے کے لیے راضی ہوجاؤ۔

پریکٹکل وزڈم کا ایک حکیمانہ اصول ہے، جس کو وقت حاصل کرنے کی تدبیر (buying-time strategy) کہا جاسکتا ہے۔ حدیبیہ میں  قیام امن کے لیے فریقِ ثانی کی شرطوں کویک طرفہ طور پر مان لینا گویا یہی تدبیر تھی۔ یہ تدبیر موثر ثابت ہوئی، اور اس کے بعد بہت کم مدت میں  عرب میں  ایک غیر خونی انقلاب (bloodless revolution) آگیا۔ یہ واقعہ بھی باعتبارِ حقیقت ری پلاننگ کا ایک واقعہ تھا۔

قدیم زمانے میں  ناجنگ معاہدہ عظیم قربانی کے بعد وقتی طور پر حاصل ہوا تھا۔ موجودہ زمانے میں  یہ صورت حال ایک یونیورسل نارم (universal norm) کے طور پر دنیا میں  قائم ہوچکی ہے۔ 1945میں  اقوامِ متحدہ (UNO) کا قیام عمل میں  آیا۔ اس کے تحت دنیا کی تمام قوموں نے اتفاقِ رائے سے یہ مان لیا ہے کہ ہر ایک کو پر امن عمل کی کلی آزادی حاصل ہوگی۔ کوئی قوم دوسری قوم پر حملہ نہیں کرے گی۔ کسی کو یہ حق نہیں ہوگا کہ وہ دوسرے کو اپنا ہم خیال بنانے کےلیے اس پر جبر کرے۔ اب تشدد (violence) اصولی طور پر ایک مجرمانہ فعل بن چکا ہے۔بشرطیکہ انسان پوری طرح امن کے اصول پر قائم رہتے ہوئے اپنا کام کرے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom