ایک انٹرویو کا خلاصہ
ث دعوت اسلامی کا مطلب میرے نزدیک دعوت الی اللہ ہے۔موجودہ زمانے میں دعوت الی اللہ کو جو چیلنج درپیش ہے، وہ میرے نزدیک الحادی فکر کا غلبہ ہے۔ اس لیے دعوت اسلامی کی راہ ہموار کرنے کے لیے سب سے پہلے ضرورت یہ ہے کہ دنیا سے الحادی فکر کا غلبہ ختم کیا جائے۔
قدیم زمانے میں مادی مظاہر کو خدا قرار دے کر انسان نے خدا کو چھوڑ دیا تھا۔ موجودہ زمانہ میں مادی مظاہر کے پیچھے کام کرنے والے سلسلہ اسباب کو خدا قرار دے دیا گیا ہے، اور اسی کا نام الحاد ہے۔ جب تک اس فکری ڈھانچہ کو توڑا نہ جائے کوئی دوسرا کام نہیں کیا جاسکتا۔
ث موجودہ زمانے کے داعیوں کا اصل مسئلہ وہ ہے جو داخلی ہے۔ وہ ابھی تک دعوت اور قومیت کو، اور اسی طرح دعوت اور سیاست کو الگ الگ نہیں کرسکے ہیں۔ جس دن وہ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے میں کامیاب ہوں گے، اسی دن ان کے مسائل کے خاتمہ کا آغاز ہوجائے گا۔
ث صحافت یقیناً اسلامی دعوت کےلیے نہایت اہم ہے۔ مگر میرا خیال ہے کہ مسلمان ابھی تک صرف قومی صحافت کو جانتے ہیں، وہ عالمی صحافت کے میدان میں داخل نہیں ہوئے۔ عالمی صحافت کے لیے موضوعیت (objectivity)لازمی طور پر ضروری ہے۔
ث جدید علمی انکشافات کو تفسیر قرآن میں استعمال کرنا میرے نزدیک عین درست ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ معیارِ اصلی قرآن ہو، نہ کہ جدید انکشافات۔ یعنی جدید انکشافات کو قرآن کی روشنی میں دیکھا جائے، نہ کہ قرآن کو جدید انکشافات کی روشنی میں ۔
ث علمی نظریات کے بدلنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دورِ اول میں جب قرآن نے کہا کہ زمین و آسمان کی نشانیوں پر غور کرو تو انسان نے اپنی اس وقت کی معلومات کی روشنی میں زمین و آسمان پر غور کیا۔ آج بھی یہی ہوگا کہ انسان اپنی موجودہ معلومات کی روشنی میں آیاتِ کون پر غور کرے گا۔ اس کی وجہ سے نہ پہلے کوئی اعتقادی خرابی پیدا ہوئی، اور نہ آج ہوسکتی ہے۔