کشتیٔ نوح کا معاملہ

پیغمبر کا انکار کوئی سادہ معاملہ نہیں۔ جو لوگ پیغمبر کا انکار کریں، وہ اِس بات کا ثبوت دے رہے ہیں کہ وہ اِس دنیامیں اللہ کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، زندگی گزارنے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے لوگ اِس مہلت کو کھو دیتے ہیں کہ وہ خدا کی اِس دنیا میں رہنے کا مزید موقع پاسکیں۔ چنانچہ مختلف قسم کے عذاب کے ذریعے اُن کو ہلاک کردیا جاتا ہے (العنكبوت، 29:40)۔

قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح کے مخاطبین کے ساتھ اِس معاملے میں الگ طریقہ اختیار کیا گیا، یعنی ایک عظیم سیلاب (Great Flood) کے ذریعے غیر صالحین کو ہلاک کردینا اور جو صالح افراد ہیں، اُن کو ایک کشتی کے ذریعے بچالینا۔ اِس خصوصی مصلحت کو قرآن کی دو آیتوں میں اِس طرح بیان کیا گیا ہے: وَجَعَلْنَاهَا آيَةً لِلْعَالَمِينَ(29:15)۔یعنی ہم نے اس(كشتي) کو دنیا والوں کے لیے ایک نشانی بنادیا۔ دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے:وَلَقَدْ تَرَكْنَاهَا آيَةً فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ (54:15)۔یعنی ہم نے اُس (كشتي) کو ایک نشانی کے طور پر باقی رکھا، پھر کوئی ہے سوچنے والا۔

 اِس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت نوح کے معاملے میں کشتی کا طریقہ اِس لیے اختیار کیاگیا، تاکہ وہ محفوظ رہے اور بعد کے لوگوں کے لیے علامتی طورپر وه خدا کے تخلیقی منصوبے کو جاننے کا ذریعہ بنے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom