اعلاءِ کلمۃ الاسلام
دهشت گردانه تحريك مثلاًالقاعدہ وغيره کو جو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی ہے، وہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اس کے پیچھے وہ عمومی مسلم سائیکی (psyche)ہے جو موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں اتنی زیادہ پھیلی ہوئی ہے کہ شاید کوئی مسلمان بھی اس سے خالی نہیں۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ اس قسم كي تحريك کو مسلمانوں کے درميان عالمی سپورٹ حاصل ہوا۔ اسی بنا پر ایسا ہوا کہ وہ اسلام کے نام پر اتنی زیادہ جرأت کے ساتھ اپنی تخریبی کارروائیاں جاری کر سکے۔ اگر اس قسم كے لوگوں کو یہ اعتماد حاصل نہ ہو کہ پوری مسلم ملّت ان کے ساتھ ہے، تو وہ اتنے زیادہ بے حوصلہ ہو جائیں گے کہ کسی دشمن کی گولی کے بغیر اپنے آپ ہی ان کا خاتمہ ہو جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے ظاہرے کو سمجھنے کے لیے دور جدید کے مسلمانوں کو سمجھنا ہوگا۔ موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلمان ایک عمومی احساس شکست میں جی رہے تھے۔ قرآن و حدیث میں وہ پڑھتے تھے کہ اسلام خدا ئے برتر کا دین ہے اور اسی کو حق ہے کہ وہ دنیا میں غالب ہو کر رہے۔ حدیث میں آیا ہے: هَذَا الدِّينِ الَّذِي يَعْلُو وَلَا يُعْلَى عَلَيْهِ(المعجم الصغير للطبراني، حدیث نمبر948)۔ يعني يه وه دين هے جو بلند هوتا هے ، اور نهيں كيا جاتا اس پر بلند۔آج کا مسلم مائنڈ یک طرفہ طور پر یہ سمجھتا ہے کہ اسلام سياسي غلبے کا دین ہے۔ اسی کے ساتھ ہر مسلمان اس احساس میں جی رہا ہے کہ موجودہ زمانے میں اسلام سياسي طورپر مغلوب ہو کر رہ گیا ہے۔
اس عمومی نفسیات کے دوران جب مسلمانوں نے دیکھا کہ بن لادن جيسے لوگ ان کے مفروضے کے مطابق، اسلام کے سب سے بڑے دشمن کو چیلنج کر رہا ہے۔ حتی کہ انہوں نے دیکھا کہ11 ستمبر 2001 کو ’’اسلام دشمن ملک‘‘کے مینار عظمت کو ڈھا دیا گيا،تو انہوں نے سمجھ لیا کہ بن لادن جيسے لوگ ہی ان کے وہ مطلوب لوگ هيں جن کو خدا نے اسلام کے کلمے کو دوبارہ بلند کرنے کے ليے پیدا کیا ہے۔ چنانچہ وہ خوش ہو کر اس کے ساتھ ہوگئے اور اس کو ہر قسم کا تعاون فراہم کرنے لگے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ بے بنیاد خوش فہمی کے سوا اور کچھ نہیں۔ بن لادن جيسے لوگوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ایسا ہے کہ دهشت گردانه عمل کے ذریعے اسلام کا کلمہ بلند ہوجائے گا۔
اس معاملے میں مسلمانوں کی غلطی کا آغاز اٹھارویں صدی سے ہوتا ہے۔ اسلام کے آغاز کے بعد تقریباً ایک ہزار سال تک کم وبیش دنیا کے بڑے حصے پر مسلمانوں کی سلطنت قائم رہی۔ اس زمانے میں مسلمان واحد سپر پاور کی حیثیت رکھتے تھے۔ پھر نشاۃ ثانیہ کے بعد مغربی قوموں کا عروج ہوااور مسلمانوں کی تمام سلطنتیں ختم ہو گئیں۔ مثلاً اسپین میں دولت غرناطہ، ترکی میں عثمانی خلافت، انڈیا میں مغل سلطنت وغیرہ۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد مسلم ملکوں کو سیاسی آزادی ملی مگر یہ آزادی دوبارہ اقتصادی غلامی کے ہم معنی بن گئی۔
دور جدید میں مسلم سلطنتوں کا خاتمہ مسلمانوں کی اس غلط فکری کا آغاز تھا۔اس کا بھیانک نتيجه بن لادن جیسے لوگوںکی صورت میں ظاہر ہوا۔ مسلم رہنمائوں نے مسلمانوں کے سیاسی زوال کو اسلام کے کلمے کے زوال کے ہم معنی سمجھ لیا۔ حالانکہ دونوں کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہ تھا۔
دور جدید میں مسلم سلطنتوں کا زوال دراصل کچھ مسلم حكمراں خاندانوں (dynasties)کا زوال تھا۔ وہ ہر گز اسلام کا زوال نہ تھا۔ دور جدید میں اسلام کا زوال دراصل نظریۂ اسلام کا زوال ہے۔ یہ واقعہ بلا شبہ مغربی تہذیب کے عروج کے بعد پیش آیا۔ تاہم اس کا کوئی تعلق مسلم سیاست کے زوال سے نہ تھا۔ اگر اس کا تعلق مسلم سیاست کے زوال سے ہوتا تو اب تک وہ ختم ہو چکا ہوتا۔ کیوں کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد دوبارہ مسلمانوں کی آزاد سلطنتیں قائم ہوگئیں۔ اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی 57آزاد سلطنتیں ہیں، مگر وہ اسلام کے نظریاتی زوال کے عمل کو روک نہ سکیں۔
اصل یہ ہے کہ اسلام کےنظریاتی زوال کا سبب اس سے زیادہ گہرا ہے، جو کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کا سبب بنا۔ اس معاملے کو درست طور پر سمجھنے کے لیے ہمیں پچھلی تاریخ کی ایک تصویر سامنے رکھنی ہوگی۔ اسی کے بعد ہی اس معاملے کی نوعیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔
اسلام کا آغاز 610 عیسوی میں ہوا۔ اسلام توحید کا مذہب تھا۔ جب کہ اُس وقت تقریباً ساری دنیا میں شرک کا غلبہ تھا۔ مشرکانہ کلچر ہر ملک میں چھایا ہوا تھا، جس کو وقت کے حکمرانوں کی سیاسی سپورٹ حاصل تھی۔ اُس وقت اسلام کا مقابلہ توحید بمقابله شرک کی حیثیت رکھتا تھا۔ دور اول کے مسلمانوں نے شرک کے مقابلے میں ہر قسم کی قربانیاں دیں۔ یہاں تک که شرک کا دَور عملاً ختم ہو گیااور توحید کا دَور شروع ہوگیا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ یہ دور تقریباً ایک ہزار سال تک چلتا رہا۔ دوبارہ ایسا نہیں ہوا کہ شرک طاقتور ہوکر مذہبِ توحید کے مقابلے میں کھڑا ہو جائے۔ مگر قرونِ وسطیٰ میں مغرب کا وہ انقلاب، جس کو نشاۃ ثانیہ کہا جاتا ہے، ایک نئے طاقت ور حریف کی حیثیت سے سامنے آیا۔ اس کا واضح آغاز سولھویں صدی میں ہوا ۔ اور چند صدیوں کے عمل کے بعد اس نے انتہائی طاقت ور حیثیت حاصل کرلی۔
اسلام کا یہ نیا طاقت ور حریف وہ تھا جس کو ایک لفظ میں سائنٹفک الحاد کہا جا سکتا ہے۔ سائنس علم ِفطرت کی حیثیت سے نہ مذہبی تھی اور نہ غیر مذہبی۔ مگر جدید سائنسی دَور میں یورپ میں ایسے مفکرین اٹھے جنہوں نے سائنس کی دریافتوں کو بطور خود الحاد کے حق میں استعمال کیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے یہ اعلان کردیا کہ جدید سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ تمام مذاہب، بشمول اسلام، صرف توہم پرستی کی پیداوار تھے۔ اس موضوع پر پچھلے دوسو سالوں میں ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک کتاب کا ٹائٹل اس نوعیت کی تمام کتابوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ ٹائٹل تھا:
God is dead
سائنٹفک الحاد نہایت تیزی سے پھیلا۔ یہاں تک کہ وہ علم کے تمام شعبوں پر چھا گیا۔ اس سائنٹفک الحاد نے بظاہر جدید دلائل کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ خدا کا کوئی وجود نہیں، وحی کی کوئی حقیقت نہیں، کوئی کتاب مقدس کتاب نہیں، جنت اور جہنم سب محض فرضی کہانیاں ہیں۔
اس جدید فکر کا آغاز سرآئزک نیوٹن (وفات1727) سے ہوا۔ پھر ایک کے بعد ایک ایسے سائنس داں پیدا ہوئے جن کی تحقیقات جدید الحاد کو تقویت دیتی رہیں۔ اگر چہ ان سائنس دانوں میں سے کوئی بھی سائنس دان معروف معنوں میں ، منکرِ خدا یا منکرِ مذہب نہیں تھا، مگر ان کی تحقیقات نے بالواسطہ طور پر جو فکر پیدا کیا وہ یہی تھا۔
مثال کے طور پر نیوٹن اور دوسرے سائنس دانوں نے یہ دکھایا کہ کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں ایک پرنسپل آف کازیشن کام کر رہا ہے۔ قدیم تو ہماتی زمانے میں انسان نیچر کو پُراسرار سمجھتا تھا۔ فطرت کے ہر واقعے کے بارے میں وہ یہ گمان کرتا تھا کہ جو ہوا ہے وہ پُراسرار طور پر ہو گیا ہے۔ مگر سائنس نے جب واقعات کے پیچھے اس کا ایک مادّی سبب دریافت کیا تو شعوری یا غیرشعوری طور پر یہ مان لیا گیا کہ ان کا خالق خدا نہیں ہے بلکہ کچھ اسباب ہیں جو واقعات کی تخلیق کر رہے ہیں۔ چنانچہ جدید ملحد مفکرین کی طرف سے یہ دعویٰ کردیا گیا :
If events are due to natural causes, they are not due to supernatural causes.
یہ الحاد جو علم کے زور پر اٹھا، یہی وہ چیز تھی جس کے بعد وہ صورتِ حال پیدا ہو گئی جس کو کلمۂ اسلام کی مغلوبیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ عام طور پر لوگ خدا کے وجود پَر شک کرنے لگے۔ مذہب کی صداقت ان کے نزدیک مشتبہ ہو گئی۔ اسلام ان کو دَور علم سے پہلے کا مذہب دکھائی دینے لگا۔
یہ ایک coincidenceتھاکہ جس زمانے میں مسلم سلطنتوں کو زوال ہوا تقریباً اسی زمانے میں اسلام کی نظریاتی صداقت کو بھی مشتبہ سمجھا جانے لگا۔ تاہم یہ ایک زمانی اتفاق تھا، ورنہ ایسا ہرگز نہ تھا کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کی بنا پر اسلام کا نظریاتی زوال پیش آگیا ہو۔ مگر اس دَور کے تقریباً تمام مسلم مفکرین اس غلط فہمی کا شکار رہے۔ انہوں نے معاملے کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیے بغیر یہ سمجھ لیا کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ اسلام کو نظریاتی زوال پیش آرہا ہے۔ اس غلط اندازے کی بنا پَر انہوں نے ساری دنیا میں سیاسی جہاد شروع کردیا۔ مسلم ملکوں اور غیر مسلم ملکوں دونوں جگہ پر کوشش کی جانے لگی کہ مسلمان کے سیاسی اقتدار کا دَور دوبارہ واپس لایا جائے۔ ان کا مشترک طورپر یہ خیال تھا کہ جب تک ایسا نہ ہو، اسلام کا کلمہ دوبارہ غالب نہ ہو سکے گا۔ حالاں کہ کلمۂ اسلام کے غلبے سے مراد حق کا نظریاتی غلبہ تھا، جب کہ مسلم اقتدار کا مطلب صرف یہ تھا کہ ایک کمیونٹی یا ایک خاندان کی سیاسی حکومت قائم ہو جائے۔
مگر یہ سوچ سر تا سر بے بنیاد ہے، اور اس کے بے بنیاد ہونے کے لیے یہ ثبوت کافی ہے کہ دو سو سالہ سیاسی جہاد کے باوجود کلمۂ اسلام کا غلبہ ممکن نہ ہو سکا۔ میسور کے سلطان ٹیپو (وفات1799) سے لے کر فلسطین کے یاسر عرفات (وفات 2004) تک دو سو سال کا طویل زمانہ ہے۔ اس مدت میں مسلمانوں نے اپنے خیال کے مطابق غلبۂ اسلام کے لیے اپنے جان و مال کی اتنی زیادہ قربانیاں دی ہیں، جو پچھلے چودہ سو سال کی مجموعی قربانیوں سے بھی زیادہ ہیں، مگر یہ ساری قربانیاں سر تا سر بے سود ہو گئیں۔ یہاں تک کہ دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں مسلمانوں کو یہ فائدہ ملا کہ ان کی پچاس سے زیادہ آزاد سلطنتیں بن گئیں، مگر جہاں تک غلبۂ اسلام کا سوال ہے وہ بدستور ایک بے تعبیر خواب بنا ہوا ہے۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں اسلام کی مغلوبیت کا معاملہ، اسلام کی نظریاتی مغلوبیت کا معاملہ ہے۔ یہ مغلوبیت اس لیے پیش آئی کہ اسلام کو موجودہ زمانے کی علمی اور نظر یاتی تائید حاصل نہ ہو سکی۔ اب دوبارہ یہ غلبہ صرف اس وقت حاصل ہو سکتا ہے، جب کہ زمانۂ جدید کے معیار کے لحاظ سے وقت کی علمی اور نظریاتی تائید اسلام کے حق میں فراہم کی جائے۔
اسلام کے ابتدائی ظہور کے بعد اسلام کو جو غلبہ حاصل ہوا، وہ بھی حقیقتاً مسلمانوں کے سیاسی غلبے کا نتیجہ نہ تھا، بلکہ وہ بھی اسلام کے نظریاتی غلبه کا نتیجہ تھا۔ جیسا کہ معلوم ہے، خلافتِ عباسیہِ کے دَور میں مسلمانوں نے اس زمانے کے علوم کا مطالعہ کیا۔ اس زمانے تک علم انسانی نے جو لٹریچر تیار کیا تھا، ان کا ترجمہ عربی زبان میں کیا گیا، اور پھر بہت بڑے پیمانے پر اُن کا جائزہ لیا گیا۔ ان علوم کی تعلیم کے لیے تاریخ کے سب سے بڑے ادارے قائم کیےگئے۔ اسی کی ایک علامتی مثال یہ ہے کہ راجر بیکن (وفات1292) جس نے انگلینڈ میں سب سے پہلی یونیورسٹی (کیمبرج یونیورسٹی) قائم کی، وہ قُرطبہ کی مسلم یونیورسٹی کا پڑھا ہوا تھا۔
یہ ایک لمبی تاریخ ہے، اور اس پر سیکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر پروفیسر ہٹی کی کتاب ہسٹری آف دی عربس کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس دَور کے مسلمانوں نے اپنے زمانے کے علوم پڑھ کر اسلام کی علمی تشریح کی اور اسلام کی علمی بالا دستی کو دلائل کی زبان میں ثابت کیا۔ حتی کہ اہلِ علم کے لیے اسلام کا نظریہ ایک ایسا نظریہ بن گیا جو پوری طرح ایک علمی مسلّمہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اسلام کو ماننا علم کو ماننا تھا، اور اسلام کا انکار کرنا، علم کا انکار کرنا تھا۔
قدیم زمانے میں جن علوم کو ترقی حاصل ہوئی وہ زیادہ تر فلسفیانہ حیثیت رکھتے تھے۔ ان علوم کی بنیاد قدیم یونانی منطق پر قائم تھی۔ جس کو قیاسی منطق (syllogism)کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں نے اس یونانی منطق کو استعمال کر کے اس کو بھر پور طور پر اسلام کا مؤید بنا دیا۔ یہاں تک کہ خالص علمی طور پر کسی کے لیے یہ گنجایش باقی نہ رہی کہ وہ علمی بنیاد پر اسلام کی صداقت کا انکار کرسکے۔
مگر موجودہ زمانے میں جدید سائنس کے ظہور کے بعد پوری صورتِ حال بالکل بدل گئی۔ جدید سائنس نے قدیم سیاسی منطق کو ڈھا دیا۔ اب ایک نئی منطق ظہور میں آئی، جس کو سائنسی منطق (scientific logic)کہا جاتا ہے۔ قدیم یونانی منطق قیاسات پر قائم تھی، اس کے مقابلے میں جدید سائنسی منطق حقائق پر قائم ہوتی ہے۔ اس فرق نے قدیم دَور کو ختم کردیا۔ اسی کے ساتھ وہ دَوربھی ختم ہوگیا جو اسلامی نظریات کے لیے علمی بنیاد بنا ہوا تھا۔ گویا کہ کلمۂ اسلام کی مغلوبیت کا سبب اس کے حق میں نظریاتی بنیاد(base)کا خاتمہ تھا، نہ کہ کسی سیاسی بنیاد کا خاتمہ۔
دَور جدید میں جب یہ علمی انقلاب آیا تو ضرورت تھی کہ مسلمانوں میں دوبارہ وہی علمی سرگرمیاں جاری ہوں جو عباسی خلافت کے دَور میں جاری ہوئی تھیں۔ اب ضرورت تھی کہ مسلم علماء جدید افکارکو پڑھ کر ان کو گہرائی کے ساتھ سمجھیں اور اسلام کی نظریاتی بنیاد کو ازسرِنو جدید علمی مسلَّمات پر قائم کریں، جیسا کہ دورِ قدیم کے مسلم علماء نے اپنے زمانے میں کیا تھا۔ مگر بَر وقت ایسا نہ ہو سکا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ اِس زمانے کے تقریباً تمام علماء نظریاتی اسلام اور مسلم اقتدار کو الگ کر کے نہ دیکھ سکے:
They failed to differentiate between Muslim rule and Islamic ideology.
اسی بے خبري کی بنا پر انہوں نے یہ سمجھا کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کا یہ نتیجہ تھا کہ اسلام کو نظریاتی زوال پیش آگیا۔ چنانچہ وہ مغربی قوموں کے خلاف سیاسی لڑائی میں مشغول ہوگئے۔ کیوں کہ ان کے نزدیک یہی قومیں مسلمانوں کے سیاسی زوال کا سبب تھیں۔ مگر یہ ایک بھیانک قسم کا غلط اندازہ تھا۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے ایک شخص جو تعلیم حاصل نہ کرنے کی وجہ سے جاہل رہ گیا ہو، اس کو تعلیم یافتہ بنانے کے لیے جسمانی طاقت كا انجکشن دیاجانے لگے۔ حالاں کہ یہ معلوم ہے کہ کوئی شخص صرف جسمانی تندرستی کی بنا پر تعلیم یافتہ نہیں بن سکتا۔
اس معاملے میں مزید غلطی یہ ہوئی کہ مغربی قوموں سے سیاسی نفرت کی وجہ سے مسلم علماء اور رہنما مغرب کی زبان اور مغرب کی سائنس سے بھی نفرت کرنے لگے۔ انہوں نے کوشش کی کہ ان کی نسلیں مغربی تعلیم سے دور رہیں تاکہ ان کا ایمان اور اسلام محفوظ رہے۔ حالاں کہ یہ معاملہ سادہ طور پر تحفظِ اسلام کا مسئلہ نہ تھا بلکہ وہ اسلام کو دوبارہ نئی علمی بنیاد فراہم کرنے کا مسئلہ تھا۔ مسلمانوں کی طرف سے یہ دہرا غلط اندازہ تھا۔ جس نے مسلمانوں کو اس شعور سے محروم کردیا کہ وہ دوبارہ اسلام کے لیے مضـبوط علمی بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کر سکیں۔
اسلام عین اسی عالمی قانون کا ایک مظہر ہے، جس کے تحت ساری کائنات چل رہی ہے۔ اسلام فطرت کا دین ہے۔ اس لیے اسلام اسی طرح ہمیشہ زندہ رہتا ہے جس طرح سورج ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ کوئی بدلی وقتی طورپرروشن سورج کو ڈھانپ سکتی ہے۔ لیکن بدلی کے ہٹتے ہی دوبارہ سورج کا روشن چہرہ اسی طرح سامنے آجاتا ہے جس طرح وہ پہلے تھا۔
سورج کے چہرے سے بدلی کے چھٹنے کا یہ واقعہ خود سائنس میں ، اس کے بعد کے دَور میں ، پیش آنا شروع ہو گیا تھا۔ اس اعتبار سے سائنس کے دو دَور ہیں۔ایک دَور البرٹ آئن سٹائن (وفات1955) سے پہلے كا هے اور دوسرا، البرٹ آئن سٹائن کے بعدكا۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نیوٹن سے لے کر آئن سٹائن تک سائنس کی تحقیق اُس دنیا تک محدود تھی جس کو عالم کبیر (macroworld) کہا جاتا ہے۔اس زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ دنیا کی تمام چیزیں اپنے آخری تجزیے میں ایٹم کا مجموعہ ہیں۔ اور ایٹم ایک ایسی چیز ہے جس کو تَولا اور ناپا جا سکتا ہے۔
اس بنا پر اُ س دَور میں یہ نظریہ بنا کہ حقیقی وجود صرف اسی چیز کا ہے جو توَلی اور ناپی جا سکے۔ جو چیز تَول اور ناپ میں نہ آئے اس کا کوئی حقیقی وجود بھی نہیں۔مگر آئن سٹائن کے زمانے میں ایک انقلابی واقعہ پیش آیا۔ اس زمانے میں یہ ہوا کہ انسانی علم میکرو ورلڈ سے گزر کر مائکرو ورلڈ (microworld) تک پہنچ گیا۔ اب معلوم ہوا کہ ایٹم ہماری دنیا کا آخری ذرہ نہیں۔ خود ایٹم بھی ایک مجموعہ ہے، جو الکٹران اور پروٹان کے ملنے سے بنا ہے۔ مگر تحقیق نے بتایا کہ الکٹران، ایٹم کی طرح کوئی مادّی ذرّہ نہیں، بلکہ الکٹران غیر مرئی لہروں (waves)کا نام ہے۔ ان لہروں کو دیکھا نہیں جاسکتا۔ ان کے بارے میں صرف یہ ممکن ہے کہ بالواسطہ اثرات کے ذریعے اُن کے وجود کے بارے میں کچھ اندازسے قائم کیے جاسکیں۔
ایٹم کا لہروں میں تبدیل ہو جانا، سائنس میں ایک بے حد اہم واقعہ تھا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ استنباط (inference)کو ایک ٹھوس علمی بنیاد حاصل ہوگئی۔ اب یہ مان لیا گیا :
Inferential argument is as valid as direct argument.
منطق میں اس تبدیلی نے سائنس کی دنیا میں انقلاب پیدا کردیا۔ آئن سٹائن سے پہلے تک یہ کہا جاتا تھا کہ مذہب میں صرف سکنڈری آرگمنٹ (secondary argument)ممکن ہے۔ مذہب میں پرائمری آرگمنٹ (primary argument)ممکن نہیں۔ چوں کہ مذہب یا اسلام کے عقائد پر تمام استدلالات استنباطی نوعیت کے ہوتے ہیں، اور مذکورہ تقسیم میں استنباط ایک سکنڈری استدلال کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے مذہب کو ان علوم میں شامل کر لیا گیا تھا ،جن کو قياسي سائنسیز (speculative sciences)کہا جاتا ہے۔
مگر ایٹم کے ٹوٹنے کے بعد جب منطق میں تبدیلی آئی، اور استنباطی استدلال کو عین سائنسی استدلال کا درجہ مل گیا تو اس کے بعد مذہب یا اسلام کی علمی بنیاد میں بھی تبدیلی آگئی۔ اب مذہبی یا استنباطی استدلال کے طریقے کو پرائمری استدلال کا درجہ حاصل ہو گیا، جب کہ اس سے پہلے اس کو صرف سکنڈری استدلال کا درجہ ملا ہوا تھا۔
اب خود علم ِانسانی میں نئے واقعات پیش آنے لگے۔ مثال کے طور پَر سائنس کے دورِ اوّل کے ذہن کو لے کر برطانیہ کے جولین ہکسلے (وفات1975) نے ایک کتاب لکھی، جس میں دکھایا گیا تھا کہ اب انسان کو خداکی ضرورت نہیں، اب انسان خود ہی اپنا سب کچھ بَن سکتا ہے۔ اس کتاب کا ٹائٹل یہ تھا:
Man Stands Alone
اس کے بعد امریکا کے ڈاکٹر کریسی ماریسن (وفات 1951) نے ایک اور کتاب چھاپی، جس میں سائنسی حقائق کی روشنی میں دکھایا گیا تھا کہ انسان صرف مخلوق ہے، وہ خدا کا درجہ نہیں لے سکتا۔ اس دوسری کتاب کا ٹائٹل یہ تھا:
Man does not Stand Alone
اس طرح برٹرینڈر سل (وفات1975) نے اپنی کتاب: Why I am not a Christian میں لکھا کہ آرگمینٹ فرام ڈزائن(argument from design) خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے ایک سائنٹفک استدلال ہے۔ مگر ڈارونزم نے اس استدلال کو ڈیسٹرائے کردیا ہے۔ اس کے جواب میں پروفیسر لون Arnold Henry Moore Lunn)، وفات1974ء) نے ایک کتاب لکھی، جس کا نام تھا:The Revolt Against Reason ۔اِس کتاب میں دکھایا گیا تھا کہ ڈارونزم خود ایک غیر ثابت شدہ نظریہ ہے۔ پھر وہ آرگمینٹ فرام ڈزائن کے ثابت شدہ نظریے کو کیسے ڈیسٹرائے کر سکتا ہے۔
علم انسانی میں اس تبدیلی کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ اب مذہب اور سائنس کی دوری ختم ہو رہی ہے۔ دونوں ہی علم کے یکساں پہلو ہیں۔ سائنس کے اس دوسرے دَور میں بہت سے اعلیٰ ذہن اُبھرے ، جنہوں نے جدید حقائق کو لے کر بتایا کہ مذہبی صداقتیں اتنی ہی حقیقی ہیں، جتنا کہ مادّی صداقتیں۔
قدیم نیو ٹینین دَور کو پہلا دھکّا اس وقت لگا جب کہ یہ ثابت ہوا کہ روشنی کے بارے میں نیوٹن کی مادی تعبیر (corpuscular theory of light) درست نہ تھی۔ نیوٹن کے نظریے کی غلطی پہلی بار اس وقت ظاہر ہوئی، جب علماء نے روشنی کی مادّی تشریح کرنے کی کوشش کی۔ یہ کوشش انہیں ایتھر (ether)کے عقیدے تک لے گئی، جو بالکل مجہول اور غیر ثابت شدہ عنصر تھا۔ کچھ نسلوں تک یہ عجیب و غریب عقیدہ چلتا رہا۔ روشنی کی مادّی تعبیر ثابت کرنے کے لیے زبردست کوششیں کی گئیں۔
لیکن میکسویل(Maxwell)کے تجربات کی اشاعت کے بعد یہ مشکل ناقابل عبور نظر آنے لگی۔ کیوں کہ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ روشنی ایک برقی مقناطیسی مظہر (electromagnetic phenomenon) ہے۔ یہ خلا بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ دن آیا جب علمائے سائنس پر واضح ہوا کہ نیوٹن کے نظریات میں کوئی چیز مقدس نہیں۔ بہت دنوں تك بجلی کو مادی (mechanical)ثابت کرنے کی آخری کوششوں کے بعد بالآخر بجلی کو ناقابل تحویل عناصر (irreducible elements)کی فہرست میں شامل کردیا گیا۔
یہ بظاہر ایک سادہ سی بات ہے۔ مگر در حقیقت یہ بہت معنی خیز فیصلہ ہے۔ نیوٹن کے تصور میں ہم کو سب کچھ اچھی طرح معلوم تھا۔ اس کے مطابق ایک جسم کی کمیت اس کی مقدار مادہ تھی، طاقت کا مسئلہ حرکت سے سمجھ میں آجاتا تھا، وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح یقین کرلیا گیا تھا کہ ہم اس فطرت کو جانتے ہیں جس کے متعلق ہم کلام کر رہے ہیں۔ مگر بجلی کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ اس کی فطرت (nature) ایسی ہے جس کے متعلق ہم کچھ نہیں جان سکتے۔ اس کو معلوم اصطلاحوں میں تعبیر کرنے کی ساری کوششیں ناکام ہوگئیں۔ وہ سب کچھ جو ہم بجلی کے متعلق جانتے ہیں، وہ صرف وہ طریقہ ہے جس سے وہ ہمارے پیمائشی آلات کو متاثر کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسے وجود (entity)کو طبیعیات میں تسلیم کر لیا گیا ،جس کے متعلق ہم اس کے ریاضیاتی ڈھانچے کے سوا اور کچھ نہیں جانتے۔
اس کے بعد اس نہج پر اس قسم کے اور بھی وجود تسلیم کيے گئے، اور یہ مان لیا گیا کہ یہ لامعلوم ہستیاں بھی سائنسی نظریات کے بنانے میں وہی حصہ ادا کرتی ہیں، جو قدیم معلوم مادہ ادا کرتا تھا۔ یہ حقیقت قرار پا گیا کہ جہاں تک علم طبیعات کا تعلق ہے، ہم کسی چیز کے اصلی وجود کو نہیں جان سکتے۔ بلکہ صرف اس کے ریاضیاتی ڈھانچے(mathematical structure)کو جاننے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اب اعلیٰ ترین سطح پریہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ ہمارا یہ خیال کہ ہم اشیاء کو ان کی آخری صورت میں دیکھ سکتے ہیں، محض فریب تھا۔ نہ صرف یہ کہ ہم نے دیکھا نہیں ہے بلکہ ہم اسے دیکھ بھی نہیں سکتے۔
بیسویں صدی کے نصف اوّل میں مذکورہ کام جو ہو رہا تھا، اس کو ایک لفظ میں ، spiritualization of scienceکہا جا سکتا ہے۔ یہ کام اس وقت اعلیٰ ترین سائنسی دماغ کر رہے تھے۔ مثلاً وائٹ ہیڈ، سرآرتھراڈنگٹن اور سر جیمز جینز، وغيره۔ مگر بیسویں صدی کے نصف آخر میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس قسم کے اعلیٰ دماغ دوبارہ اِس علمی تحریک کو نہ مل سکے، جس کو ہم نے اسپریچولائزیشن آف سائنس کا نام دیا ہے۔
اس کا سبب غالباً عالمی سماج میں وہ نیا ظاہرہ تھا جس کو کنزیومر ازم کہا جاتا ہے۔ کنزیومرازم کی غیر معمولی مقبولیت نے صرف ان چیزوںکو اہمیت دے دی جو مارکٹ ایبل تھیں۔مذکورہ عمل تھیورٹیکل سائنس سے تعلق رکھتا تھا، اور تھیوریٹکل سائنس میں کمرشیل ویلو زیادہ نہیں ہوتی۔ اس لیے تمام اعلیٰ دماغ ٹکنکل سائنس کے شعبوں میں کام کرنے لگے۔ کیوں کے تمام بڑے بڑے اقتصادی فائدے سائنس کے ٹکنکل شعبوں سے متعلق ہو گئے تھے۔ اس طرح تھیوریٹکل سائنس میں ریسرچ کا کام اپنی آخری تکمیل تک پہونچنے سے پہلے رُک گیا۔ اب ضرورت تھی کے بڑے بڑے مذہبی دماغ اس کام میں لگیں اور اس کو اس کی آخری تکمیل تک پہونچائیں۔ مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ مذہبی حلقے میں اعلیٰ دماغ موجود تھے۔ مگر وہ اِس اصل کام کو چھوڑ کر دوسرے کاموں میں لگ گئے۔
جدید تہذیب کے ظہور کے بعد اہلِ مذاہب کے لیے یہ نیا مسئلہ پید ا ہوگیا تھا کہ لوگ جدید تعلیم اور جدید افکار سے متاثر ہو کر مذہب کے روایتی عقیدے پر شک کرنے لگے تھے۔ چنانچہ تمام بڑے بڑے مذہبی دماغ اس کے دفاع میں لگ گئے۔ ہندوئوں میں اس زمانے میں بڑے بڑے دماغ پیدا ہوئے مثلاً ڈاکٹر رادھا کرشنن (وفات1975) وغیرہ۔ مگر یہ لوگ ہندو مذہب کی میتھالوجی کے حق میں بطور خود ریشنل پروف فراہم کرنے میں مصروف ہوگئے۔ اسی طرح عیسائیوں میں بڑے بڑے دماغ پیدا ہوئے۔ مثلاً ڈاکٹربلی گراہم، وغیرہ۔ ان لوگوں نے بھی یہی کیا کہ عیسائیت کے روایتی عقائد، تثلیث اور کفاّرہ وغیرہ کو بطور خود عقلی بنیاد فراہم کرنے میں مصروف ہو گئے۔
جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، ان کے یہاں بھی اسی زمانے میں بڑے بڑے دماغ پیداہوئے مثلاً سید جمال الدین افغانی، وغیرہ۔مگر مسلم اہلِ دماغ ایک اور غلطی میں مبتلا ہو گئے۔ عین اسی زمانے میں یہ ہوا کہ مسلمانوں کو سیاسی زوال پیش آگیا۔ چنانچہ مسلمانوں کے تمام اعلیٰ دماغ پولٹکل محاذ پر مصروف ہو گئے۔ کچھ افراد نے پولٹکل لڑائی کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔ کچھ اور افراد نے اسلام کو پولٹکل انٹرپریٹیشن دینے کو سب سے بڑا کام سمجھ لیا۔ اس طرح یہ ہوا کہ مسلم اہلِ دماغ سیاست کے جنگل میں کھو گئے۔ وہ مذکورہ عمل کو آگے بڑھانے میں ناکام رہے۔
یہ حقیقت ہے کہ موجودہ زمانے میں سب سے بڑا کام اعلائے کلمۂ اسلام کا ہے۔ مگر اس کام کے لیے نہ تو مسلّح جہاد کی ضرورت ہے اور نہ اسلام کوپولٹکل ثابت کرنے سے اسلام میں کوئی پیش رفت ہو سکتی ہے، اور نہ بن لادن جیسے لوگ اسی معاملے میں کوئی پازیٹیو رول ادا کرسکتے ہیں۔ اس قسم کی تدبیروں کے غلط ہونے کے لیے یہی کافی ثبوت ہے کہ دوسو سال تک مسلمانوں کی کئی جنریشن ان راہوں میں قربانی دیتی رہی مگر اصل مطلوب مقصد ایک فیصد بھی حاصل نہ ہو سکا۔
اِس پہلو سے موجودہ زمانے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسلام نے اپنے حق میں انسانی علم کی بنیاد کھودی ہے۔ یہ علمی بنیاد دوبارہ اس طرح فراہم ہو سکتی ہے کہ اُس عمل کو آخری تکمیل تک پہنچایا جائے، جس کو ہم نے اسپریچویلائزیشن آف سائنس کہا ہے۔ ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے اعلیٰ دماغ اس کام میں اپنے آپ کو وقف کریں آج مسلمانوں کو بن لادن جیسے لوگوں کی ضرورت نہیں، بلکہ یہ ضرورت ہے کہ ان کے اندر وائٹ ہیڈ، آرتھراڈ نگٹن اور جیمز جینز جیسے افراد پیدا ہوں۔ بن لادن جیسے لوگ صرف تخریب کا کام کر سکتے ہیں، جب کہ آج اصل ضرورت یہ ہے کہ مثبت تعمیر کا کام کیا جائے۔ خاص طور پَر علمی اور سائنسی تعمیر۔
قرآن(2:30) میں یہ خبردی گئی ہے کہ خدا نے انسان کو دنیا کی تمام چیزوں کا علم دے دیا (وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا)۔ انسانی برین کے بارے میں جدید دریافت گویا اس آیت کی تفسیر ہے۔ جدید دریافت بتاتی ہے کہ ہر انسانی برین میں بے شمارپارٹکلس ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایک سو میلین، بلین بلین سے زیادہ پارٹکل۔ یہ کوئی سَینڈ پارٹکل (sand particle)کے مانند نہیں، بلکہ وہ انفارمیشن پارٹکل ہیں۔ ان پارٹکل کے ذریعے گویا خدا نے ہر قسم کی معلومات کو انسانی دماغ میں فیڈ کردیا ہے۔ ان پارٹکل میں فزکل معلومات بھی ہیں اور اسپریچول معلومات بھی۔
موجودہ زمانے میں سائنس دانوں نے کائنات کو دریافت کر کے بے شمار چیزیں بنائی ہیں۔ یہ دریافتیں در اصل دریافتیں نہیں ہیں بلکہ وہ انسانی دماغ میں پهلے سے موجود انھیں انفارمیشن پارٹکلس کی اَن فولڈنگ ہیں۔ اس طرح انسان نے بہت بڑی مقدار میں اپنے دماغ میں فیڈ کی ہوئی فزیکل معلومات کو ان فولڈ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
مگر جہاں تک دماغ میں فیڈ کی ہوئی اسپریچول انفارمیشن کا تعلق ہے اس کا بڑا حصہ ابھی تک اَن فولڈ نہ ہوسکا۔دماغ میں فیڈ کی ہوئی اسپریچول انفارمیشن کو اَن فولڈ کرنے کا کام ابھی باقی ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلم اہلِ دماغ کو یہی کام کرنا ہے۔ یہی وہ کام ہے جس کو انجام دینے پر اعلائے کلمۂ اسلام کا دروازہ ان کے لیے کھُلے گا۔
ختم نبوت کا مطلب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كي ايك حديث ان الفاظ ميں آئي هے:إِنِّي خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي(مسند احمد، حدیث نمبر 23358)۔يعني میرے اوپر نبوت ختم ہوگئی، میرے بعد کوئی اور نبی نہیں ۔ اس کا مطلب سادہ طور پر صرف یہ نہیں ہے کہ گنتی کے اعتبار سے پیغمبروں کی فہرست مکمل ہوگئی، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کے بعد اب کسی اور پیغمبر کے آنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ وہ اسباب ختم ہوگئے، جس کی وجہ سے بار بار پیغمبر بھیجے جاتے تھے۔
پیغمبر کا مقصد ہدایتِ الٰہی کو انسانوں تک پہنچانا ہے۔ اس کے لیے پیغمبر کا شخصاً موجود ہونا ضروری نہیں۔ اگر ایک ایسا گروہ موجود ہو جو پیغمبر کے نمائندے کی حیثیت سے امرِ حق لوگوں تک پہنچاتا رہے تو ایسی حالت میں پیغمبر مبعوث نہیں کیا جائے گا۔ پیغمبر آخر الزماں سے پہلے اس قسم کی ضمانت موجود نہ تھی اس لیے بار بار پیغمبر بھیجے جاتے رہے۔پیغمبر اسلام کے بعد تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ خدا کا کلام (قرآن) اپنی اصلی حالت میں مکمل طورپر محفوظ ہوگیا۔ یہ حفاظت اِس بات کی ضمانت بن گئی کہ ہر نسل میں اور ہر زمانہ میں ایسے افراد موجود رہیں، جو ہدایتِ الٰہی کی صحیح معرفت حاصل کرکے اُسے دوسروں تک پہنچائیں۔