نظریۂ امن
امن کے بارے میں انسان ہمیشہ سوچتا رہا ہے۔ قدیم زمانے میں امن ایک قسم کا انتظامی معاملہ سمجھا جاتا تھا، یعنی امن ایک ایسی چیز تھی جس کو حاکمانہ اختیار کے تحت قائم کیا جاتا ہے۔ اِس نظریے کے تحت ارباب اختیار نے امن قائم کرنے کی کوشش کی۔ مثلاً پیکس رومانا(Pax Romana)، پیکس برٹانکا (Pax Britanica)، پیکس امریکانا(Pax Americana)، وغیرہ۔ مگر اِس قسم کا سیاسی امن صرف جُزئی طورپر کسی سماج کے لیے مفید ہوسکتا ہے۔ اِس لیے وہ اہلِ علم کے درمیان مطلوب امن کا درجہ حاصل نہ کر سکا۔
بیسویں صدی کے آغاز سے امن پر مبنی ایک باقاعدہ نظریہ(ideology) وجود میں آیا۔ اِس کو عام طورپر پیسی فزم (pacifism) کہا جاتا ہے۔ پیسی فزم کے نظریے کے تحت موجودہ زمانے میں متعدّد مفکرین پیدا ہوئے۔ مثلاً سموئل کانٹ (Samuel Cant)، مارکس اریلیس (Marcus Aurelius) اور مہاتما گاندھی وغیرہ۔ اِس نظریے کی حمایت میں بہت سے مقالات اور کتابیں شائع ہوئیں۔ انسائکلو پیڈیا برٹانکا میں اِس موضوع پر تقریباً دس صفحے کا ایک مقالہ شامل ہے۔ اِس موضوع پر شائع ہونے والی کتابوں کی فہرست بہت لمبی ہے۔ یہاں ہم صرف تین کتابوں کا نام درج کرتے ہیں:
1. Raymon Raymond Aron, Peace and War, 1966
2. E.L. Alen, Francis E. Pollard, The Case for Pacifism and Conscientious Objection, 1946
3. Aldous Huxley, An Encyclopeadia of Pacifism, 1937
لیکن امن کے رہنما اور مفکرین کا مطالعہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ یہ تمام افراد جس امن تک پہنچے، وہ صرف ایک منفی امن (negative peace) تھا۔ جہاں تک مثبت امن (positive peace) کا تعلق ہے، وہاں تک کوئی بھی شخص نہ پہنچ سکا۔ امن کے تمام مفکرین جس امن کی بات کرتے ہیں، وہ جنگ اور تشدد کے مقابلے میں ہوتی ہے۔ چنانچہ امن کی تعریف جنگ اور تشدد کی غیرموجود گی (absence of war and violence) سے کی جاتی ہے۔ اِسی تصور کی بنا پر یہ تمام افراد مفروضہ دشمنانِ امن کے خلاف اقدام کرتے رہے۔ کیوں کہ اُن کے نزدیک اِن دشمن طاقتوں کے خاتمے سے دنیا میں امن قائم ہوتا تھا۔
اِس نظریۂ امن میں امن کو مثبت قدر (positive value)کا مقام حاصل نہ ہو سکا۔اِس نظریۂ امن میں امن کو صرف ایک طریقۂ کار (method) کا درجہ حاصل ہوا، نہ کہ وسیع تر معنوں میں ایک نظریۂ حیات (ideology)کا درجہ۔
پیسی فزم (pacifism)کے معاملے میں مہاتما گاندھی کا نام نمایاں طورپر شامل ہے۔ لیکن ان کا نظریۂ امن بھی ایک منفی نظریۂ امن کی حیثیت رکھتا ہے۔ نئی دہلی میں ایک خصوصی سیمینار ہوا۔ اِس سیمینار کی مکمل روداد نئی دہلی کے انگریزی اخبار ’دی پائنیر‘ (26 جنوری1997 ) میں شائع ہوئی۔ اِس سیمینار میں راقم الحروف کے علاوہ حسب ذیل افراد شریک ہوئے — رام چندر گاندھی، رویندر کمار، سبراتا مُکھرجی، کے آر ملکانی۔ اِس سیمینار کا موضوع یہ تھا — کیا گاندھی آج کامیاب ہوتے:
Could Gandhi have succeeded today?
میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ گاندھی ماضی میں بھی کامیاب نہیں ہوئے، پھر وہ آج کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں۔ میں نے کہا کہ گاندھی کا مقصد ایک پُرامن انقلاب لانا تھا، مگر اپنے پیشِ نظر مقصد کے مطابق، وہ کوئی پُرامن انقلاب نہ لاسکے۔ انھوں نے جو کچھ کیا، وہ انقلاب نہ تھا، بلکہ محدود معنوں میں صرف حکم رانوں کی تبدیلی (coup) تھا۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک ناگہانی انقلاب (coup)تھا، نہ کہ کوئی حقیقی انقلاب۔ میری یہ تقریر لفظ بہ لفظ مذکورہ اخبار میں چھپی۔ میری تقریر کے ایک جملے کو لے کر اخبار نے اُس کا عنوان اِن الفاظ میں قائم کیا تھا:
Gandhi presided over a non-violent coup, he didn’t usher in a revolution.
یہی معاملہ ہر اُس رہنما اور مفکر کا ہوا جو امن (peace)کے نام پر کام کرنے کے لیے اٹھا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ انسانی زندگی میں پر امن واقعے کو ظہور میں لانے کے لیے ایک پُرامن آئڈیالوجی (peaceful ideology) درکار ہے۔ چوں کہ کوئی شخص پُرامن آئڈیالوجی کو دریافت نہ کرسکا، اِس لیے وہ پُرامن زندگی کی تشکیل بھی نہ کرسکا۔
رہنماؤں کی اِس ناکامی کا مشترک سبب یہ ہے کہ ہر ایک امن کو سیاسی اقتدار کے ساتھ جوڑے ہوئے تھا، ہر ایک نے وقت کے سیاسی اقتدار کو امن کی راہ میں رکاوٹ سمجھا، ہر ایک اِس طرح سوچتا رہا کہ اگر امن کو حاصل کرنا ہے تو سب سے پہلے سیاسی اقتدار کی رکاوٹ کو ختم کرنا ہوگا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امن کی ہر تحریک وقت کے سیاسی اقتدار سے ٹکرا گئی۔ فطری طور پر اربابِ اقتدار نے بھی اپنی طاقت کو ان تحریکوں کے خلاف استعمال کیا۔ اِس طرح دونوں کے درمیان ٹکراؤ شروع ہوگیا۔ امن کے نام پر آخر میں جو چیز قائم ہوئی، وہ صرف بد امنی اور انارکی (anarchy)تھی۔ اِس کی ایک مثال 1947 کے بعد بننے والے ’’گاندھیائی انڈیا‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
تاریخ کی ان تمام مثالوں کے برعکس، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نیا فارمولا دریافت کیا۔ اِس فارمولے کا علم آپ کو خدا کی طرف سے دیاگیا تھا۔ اِسی لیے قرآن میں اُس کی بابت یہ الفاظ آئے ہیں: فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا(48:27)۔یعنی خدا نے وہ بات جانی، جس سے انسان بے خبر تھا۔