سیاسی ماڈل کا نقصان
ترکی کی اسلامی خلافت کیا تھی، وہ اسلام کے نام پر خاندانی بادشاہت تھی۔ مگر اسلام کا ٹائٹل دینے کی بنا پر وہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے سیاست کا ماڈل بنی ہوئی تھی۔ ہر جگہ مسلمان اسی نہج کا ماڈل قائم کرنے کے لیے سیاست کا جھنڈا اٹھائے ہوئے تھے۔ اِس راہ میں جان ومال کی قربانی کو انھوں نے اپنے لیے نجاتِ آخرت کا ذریعہ سمجھ لیا تھا۔
ترکی کی مسلم خلافت 1924 میں ختم ہوئی، لیکن تمام دنیا کے علما اُس کو دشمنوں کی سازش قرار دے کر اس کے خلاف شکایت اور احتجاج میں مشغول رہے۔ کسی نے اِس راز کو نہیں سمجھا کہ خلافت کا ’’اِلغاء‘‘ دراصل ایک خدائی آپریشن تھا۔ اِس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے اندر قدیم سیاسی ذہن ختم ہو، اور ان کے اندر نیا دعوتی ذہن پیدا ہو۔ مگر مسلم رہنماؤں کے منفی رد عمل کی بنا پر 1924 کے بعد بھی مسلمانوں میں قدیم سیاسی ذہن ختم نہ ہوا، مسلمانوں کے اندر سیاسی اعتبار سے، تفکیرِ نو (rethinking) كا پراسس جاري نہ ہوسکا، جو کہ مطلوب تھا۔
اس کی ایک مثال بوسنيا ہرزے گووینا (Bosnia Hercegovina) کا کیس ہے۔ بوسنیا یورپ کے قلب میں واقع ہے، جو كه قديم زمانے ميں عثماني خلافت كا ايك حصه تھا۔ هرزے گووينا یوگوسلاویہ (Yugoslavia) کا ایک صوبہ ہے۔ یہاں مسلمانوں کی تعداد 45 فی صد سے کچھ زیادہ ہے۔ بوسنیا میں دسمبر 1991میں صوبائی الیکشن ہوا۔ اِس الیکشن کے بعد وہاں کے ایک مسلم لیڈر الیجا عزت بیگووچ (Alija Izetbegovic) کو وہی عہدہ مل گیا جس کو انڈیا کی اصطلاح میں چیف منسٹر کہا جاتاہے۔
عزت بیگووچ (وفات2003) کو موقع تھا کہ وہ بوسنیا میں دعوتی اور تعلیمی کام کریں، مگر اپنے سیاسی شاکلہ کی بنا پر انھوں نے ایک غیر دانش مندانہ اقدام کردیا۔ انھوں نے بوسنیا کو ایک آزاد مسلم اسٹیٹ (independent Muslim state) ڈکلیر کردیا۔ یوگوسلاویہ کی مرکزی حکومت کے لیے اُن کا یہ اعلان، بغاوت کا درجہ رکھتا تھا۔ چنانچہ مرکزی حکومت نے بوسنیا کے خلاف سخت فوجی کارروائی کی۔ بیگووچ کے اِس اعلان سے بوسنیا کے مسلمانوں کو تباہی کے سوا کچھ اور نہیں ملا۔ سیاسی مائنڈ سیٹ (political mindset)نہ ٹوٹنے کی وجہ سے مسلمان جگہ جگہ اِسی قسم کی غيرحقيقت پسندانه سیاست چلاتے ہیں، اور نتیجۃً وہ اپنی تباہی میں مزید اضافہ کرلیتے ہیں۔