تركي كي جديد تصوير
مشهور مستشرق فلپ كے هٹي (Philip K. Hitti) نے عرب كي تاريخ پر ايك كتاب لكھي هے۔ يه كتاب اپنے موضوع پر ايك مستند كتاب ماني جاتي هے، اور يونيورسٹيوں ميں داخل نصاب هے۔ اِس كتاب كا ترجمه مختلف زبانوں ميں هوچكا هے۔ اصل انگريزي كتاب كا ٹائٹل يه هے:
History of the Arabs: From the Earliest Times to the Present
822صفحات كي اس كتاب ميں عربوں كي علمي اور فكري تاريخ كو مستند ماخذ (authentic sources) كے حوالے سے بيان كياگيا هے۔اِس كتاب كا ايك باب علمي اور ادبي ترقيوں (scientific and literary progress) كے بارے ميں هے۔ مصنف نے بتايا هے كه عرب ايك زمانے ميں ترقي كي اِس حد تك پهنچے كه ابن سينا كي كتاب كو ميڈيكل بائبل كهاجاتا تھا (صفحه 368)۔ اس كا ذكر كرتے هوئے مصنف نے لكھا هے كه بعد كي صديوں ميں عرب اپني ترقي كي رفتار كو برقرار نه ركھ سكے:
Reverence for the past with its traditions, both religious and scientific, has bound the Arab intellect with filters which it is only now beginning to shake off. (p. 381)
يعني ماضي كي روايات كو مقدس سمجھنا عرب ذهن كے ليے ترقي كا بندھن بن گيا، علمي اعتبار سے بھي اور مذهبي اعتبار سے بھي۔ اب اِس ميں تبديلي هور هي هے، مگر ابھي وه صرف آغاز كے درجے ميں هے۔
فلپ هٹي نے جوبات عربوں كے بارے ميں لكھي هے، وهي بات پوري مسلم دنيا كے بارے ميں درست هے۔ اِس عموم ميں خود تركي بھي شامل هے۔ تركي ميں وه سارے حالات پيدا هوئے جو بقيه مسلم دنيا ميں پيدا هوئے تھے۔ موجوده دور ميں پوري مسلم دنيا قديم وجديد كي كشمكش سے گزري هے۔ اِس اعتبار سے، تركي ميں بھي وهي حالات پيش آئے جو دوسرے مسلم ملكوں ميں پيش آئے۔
البته ايك اعتبار سے فرق هے، وه يه كه تركي جغرافي اعتبار سے، يورپ كي سرحد پر واقع هے، بلكه جزئي طورپر وه براعظم يورپ هي كا ايك حصه هے۔ اِس ليے فطري طورپر ايسا هوا كه نشاةِ ثانيه (Renaissance) كے بعد يورپ ميں جو نئے حالات پيداهوئے، اُن كا براهِ راست اثر تركي پر پڑا۔ وه واقعه جس كو ’’تركي ميں مشرق ومغرب كي كشمكش‘‘ كهاجاتا هے، وه دراصل اس علاقے ميں پيش آنے والے تهذيبي انقلاب كا نتيجه تھا، نه كه كسي اتفاق يا كسي ’’سازش‘‘ كا نتيجه۔
تركي كي مخصوص جغرافي پوزيشن كے نتيجے ميں فطري طورپر ايسا هوا كه تركي ميں وه پراسس شروع هوا جس كو ويسٹرنائزيشن (westernization) يا سيكولرائزيشن(secularization) كهاجاتا هے۔ اِس تحريك كے علم بردار بهت سے نئے تركي مفكرين تھے۔ مثلاً محمد نامق كمال (1840-1888) اور محمد ضيا گوكلپ (1875-1924)، وغيره۔ مشهور تنظيم ينگ ترك Young Turk)) بھي اِسي كا ايك حصه تھي۔
تركي كا سلطان سليم اول(وفات1520ء) سياسي دائرے ميں اِس تحريك كا حامي تھا۔ وه چاهتا تھا كه تركي كي تجديد كاري (modernization) كي جائے۔ خاص طورپر حكومتي ادارے كو ماڈرنائز كرنا۔ اِس سلسلے ميں سلطان نے تركي كي فوج كو مغربي آلاتِ حرب سے مسلح كرنے كي كوشش كي، مگر اُس وقت تركي كے حالات اِس قسم كي تجديد كاري كے ليے موافق نه تھے۔ چنانچه مصلحين كي كوششيں زياده كامياب نه هوسكيں اور خود سلطان سليم كو تخت چھوڑ دينا پڑا۔
جيسا كه معلوم هے، تركي ميں اسلام عهدِ صحابه ميں پهنچ چكا تھا۔ تركي اِس سے پهلے رومي سلطنت كے قبضے ميں تھا۔ مسلمانوں نے جب رومي سلطنت كو توڑا تو اس كے بعد تركي مسلم مملكت كا ايك حصه بن گيا۔ رومي سلطنت كے زمانے ميں تركي كي آبادي زياده تر مسيحي مذهب كو ماننے والي تھي۔ نئے حالات كے تحت يهاں اسلام تيزي سے پھيلنے لگا۔ عربي زبان وسيع پيمانے پر رائج هوگئي۔ تركي كے شهروں ميں كثير تعداد ميں عربي مدرسے قائم هوئے۔
تركي كے يه عربي مدرسے آخر تك اپنے روايتي انداز پر قائم رهے۔ اِن مدرسوں كا ماحول مكمل طورپر قدامت پرستي كا ماحول تھا۔ اِن مدرسوں سے بڑي تعداد ميں علماء پيدا هوئے۔ دھيرے دھيرے تركي ميں علماء كو نهايت مضبوط حيثيت حاصل هوگئي، يهاں تك كه نئے خليفه كي خلافت اُس وقت مكمل هوتي تھي جب كه وه جامع ايوب (مقبره ابوايوب انصاري) ميں حاضر هو، اور وهاں شيخ الاسلام (مفتي اعظم قسطنطنيه) اس كي كمر ميں روايتي تلوار اپنے هاتھ سے حمائل كريں، يه رسم نئے خليفه كي تاج پوشي كا ايك لازمي حصه تھي۔
اِن تاريخي اسباب كے نتيجے ميں تركي كے علماء كو تركي ميں نهايت طاقت ور پوزيشن حاصل هوگئي۔تركي كے يه علماء دوسرے ملكوں كي طرح، اپنے محدود ماحول ميں رهتے تھے، ان كو خارجي دنيا ميں آنے والي تبديليوں كي مطلق خبر نه تھي۔ وه اپنے اِس قدامت پرستانه مزاج كي بنا پر تركي ميں تجديد كاري كي تحريك كے شديد مخالف بن گئے۔ اِس كي ايك مثال يه هے كه ’’مغرب ميں پندرھويں صدي عيسوي ميں متحرك ٹائپ كي ايجاد سے پرنٹنگ پريس كي دنيا ميں حيرت انگيز انقلاب آگيا تھا، ليكن علماء نے اِس نئي ٹكنالوجي كو يه كهه كر رد كرديا كه عربي يا تركي كي كتابوں ميں خدا اور رسول كا نام هوتا هے جس كو اِس جديد طريقه طباعت ميں پامال نهيں كيا جاسكتا‘‘۔ اِسي طرح ’’1577 عيسوي ميں استانبول ميں ايك عظيم الشان رصد گاه قائم كي گئي تھي جس كو علماء نے خلافِ اسلام قرار دے ديا۔ اتفاق سے اُنھيں دنوں وهاں طاعون كي وبا پھيل گئي۔ علماء كا موقف تھا كه يه دراصل اسرارِ خدائي ميں مداخلت كي سزا هے۔ بالآخر1580 عيسوي ميں عوامي دباؤ كے سبب اِس رصد گاه كو منهدم كردياگيا‘‘، وغيره۔ (ادراك زوالِ امت، از: راشد شاز، جلد 2، صفحه 177)
روايتي علما كي شديد مخالفت كي بنا پر تركي ميں جوحالات پيدا هوئے، اس كے نتيجے ميں يه هوا كه ايك طرف تجديدي مصلحين كي آواز دب گئي، اور دوسري طرف شديد دباؤ كے تحت سلطان سليم اول كو 8 سال حكومت كرنے كے بعد 1520 عيسوي ميں تخت خلافت چھوڑنا پڑا۔