سیاسی اقتدار کی نوعیت
اسلام میں سیاسی اقتدار کی اہمیت صرف ایک اعتبار سے ہے، اور وہ ہے پولیٹکل استحکام (political stability)۔ اسی کو قرآن میں تمکین فی الارض کہا گیا ہے(22:41)۔ اسلام میں سیاسی اقتدار کا اصل مقصد عادلانہ نظام یا قوانین کا نفاذ نہیں ہے،بلکہ سماج میں استحکام قائم کرنا ہے۔ جب استحکام ہوگا تو لوگوں کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اپنے اپنے دائرے میں دینی کام کریں۔ مثلاً مسجد کی صورت میں اقامتِ صلاۃ کا نظام، مدرسے کی صورت میں دینی تعلیم کا نظام، حج کی صورت میں مسلمانوں میں اجتماعیت کا نظام ، دعوت کی صورت میں اسلام کی اشاعت کا نظام، وغیرہ۔
یہی وجہ ہے کہ دورِ اول میں جب خلافت کی جگہ خاندانی نظام (dynasty) قائم ہوگيا تو صحابہ ، تابعین، تبع تابعین سے لے کر بعد کے علماء تک عملاًامت کے تمام افراد نے خاندانی نظام حکومت کو قبول کرلیا۔ کیوں کہ اس کے ذریعے سے سماج میں استحکام کا ماحول قائم ہوگیا تھا۔ اس استحکام کی بنا پر اہل ایمان کو موقع ملا کہ وہ دین کے تمام تقاضےپر امن انداز میں پورے کرسکیں۔ مثلاًقرآن کی حفاظت، حدیث کی جمع و تدوین، فقہ کا ارتقاء، مساجد و مدارس کا نظام، عمرہ اور حج کا نظام،اسلامی علوم کی تدوین،وغیرہ۔ یہ سارے کا م پر امن ماحول میں ہزار سال تک جاری رہے۔
بیسویں صدی میں مسلمانوں کے اندر بہت سی تحریکیں اٹھیں۔ ان تمام تحریکوں کااصل نشانہ پولیٹکل اقتدار تھا۔ سب کا کیس ظاہری فرق کے باوجود ایک ہی تھا، اور وہ ہے سیاسی رخ (political orientation) ۔ ان سب کا انجام مشترک طور پر ایک ہی ہوا، اپنے نشانہ کو حاصل کرنے میں ناکامی۔اللہ کی سنت یہ نہیں ہے کہ جو لوگ اسلام کے نشانے کو لے کر اٹھیں، وہ اپنے نشانے کو پورا کرنے میں ناکام رہیں۔ نشانہ پورا نہ ہونے کا معاملہ کسی غیر کی سازش کا نتیجہ نہ تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ان بانیانِ تحریک نے منصوبۂ الٰہی کو نہیں سمجھا، اور خود ساختہ نشانہ لے کر اٹھ گئے۔ ایسی تحریک کے لیے یہی مقدر ہے کہ وہ اپنے نشانے کو پورا کرنے میں ناکام رہے۔ یہ تحریکیں بظاہر اب بھی موجود ہیں تو ان سب پر یہ مثال صادق آتی ہے: تاڑ سے گرا اور کھجور میں اٹکا۔ ان تمام تحریکوں نے یہی کیا کہ انھوں نے اپنے نشانے کی غلطی کا اعلان نہیں کیا۔ البتہ سابق نام کے ساتھ اپنے نئے کام کو جاری رکھا۔ یہ طریقہ دو عملی کا طریقہ ہے، اور دو عملی اسلام میں بلاشبہ غیر مطلوب ہے۔
اس دور کے مسلم بانیانِ تحریک کے ساتھ بظاہر ایک ہی معاملہ پیش آیا۔ ان لوگوں کا فکر پچھلے ہزار سال کے سیاسی حالات میں بنا تھا۔ پچھلے ہزار سال کے دورا ن دنیا میں ہر جگہ پولیٹکل ماڈل کا رواج تھا۔ اس سے ان بانیانِ تحریک کے اندر پولیٹکل مائنڈ سیٹ بنا۔ انھوں نے اپنے اس پولیٹکل مائنڈ سیٹ کو درست سمجھ کر اس کے مطابق تحریک شروع کردی۔ مگر یہ خلافِ زمانہ حرکت (anachronism) کا معاملہ تھا۔ اب قدیم دور کا پولیٹکل ماڈل ختم ہوچکا تھا، نئے دور میں صرف ایک ہی ماڈل قابلِ عمل ہے، اور وہ ہے غیرسیاسی (non-political) ماڈل۔ قدیم زمانہ بادشاہت کا زمانہ تھا۔ موجودہ زمانہ جمہوریت (democracy) اور سیکولرزم کا زمانہ ہے۔ سیکولرزم کا مطلب ہے مذہبی ناطرف داری، اور ڈیموکریسی کا مطلب ہے ہر ایک کے لیے مکمل آزادی، ہر ایک کو مواقع کے استعمال کا یکساں حق۔ اس انقلاب سے پہلے مواقع پر صرف بادشاہ کی اجارہ داری (monopoly) ہوا کرتی تھی۔ اب یہ اجارہ داری ختم ہوچکی ہے۔ اب نئے حالات میں تمام مواقع تمام انسانوں کے لیے یکساں طور پر قابلِ استعمال ہوچکے ہیں۔ اب صرف ایک ہی چیز کی پابندی ہے، اور وہ ہے تشدد (violence)۔ دورِ جدید کے مسلم بانیان تحریک نے بظاہر اس راز کو نہیں سمجھا، وہ غیر ضروری طور پر اُس چیز کے لیے لڑتے رہے، جو عملاً ان کوحاصل ہو چکی تھی۔
حدیث کے مطابق، بعد کے زمانے میں اسلام کا داعی بادشاہ کی طرح (كالملوك على الأسِرّة) سفر کرے گا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2799) ۔یہاں مثل بادشاہ سفر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو مواقع قدیم زمانے میں بادشاہوں کے لیے خاص سمجھے جاتے تھے، وہ مواقع عام داعیان اسلام کو حاصل ہو جائیں گے۔ رکاوٹ کے بغیروہ ساری دنیا میں اسلام کی دعوت پھیلانے کے لیےآزاد ہوں گے۔