دعوتِ عام کی ذمہ داری

بیان کیا جاتا ہے کہ پچھلے انبیاء مقامی آبادیوں کے لیے آئے۔ وہ جس قوم میں  پیدا ہوئے وہی قوم اُن کی دعوت کامیدان ہوتی تھی۔ مگر پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلمکے بعد کوئی اور پیغمبر آنے والا نہ تھا، اس لیے آپ ساری دنیا کے لیے داعی اور منذر بنا کر بھیجے گئے(الفرقان، 25:1)۔ اسی لیے پیغمبراسلام کے لیے قرآن میں  یہ الفاظ آئے ہیں:وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ (21:107)۔ یعنی ہم نے تم کو تمام دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

یہ بات اہل اسلام کے لیے فخر یا فضیلت کی بات نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک سنگین ذمہ داری کی بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے پیغمبروں کی امتوں کی دعوتی ذمہ داری اگر مقامی دائرہ تک محدود رہتی تھی، تو امّتِ محمدی کی ذمہ داری سارے عالم تک پھیلی ہوئی ہے۔ اُمّتِ محمدی کا اُمّتِ محمدی ہونا صرف اُس وقت متحقّق ہو سکتا ہے، جب کہ وہ تمام دنیا کی قوموں کے اوپر اپنی دعوتی ذمہ داری کو ادا کرے۔ اس دعوتی عمل کے بغیر اُس کا اُمّتِ محمدی ہونا ہی مشتبہ ہے (الانعام، 7:19؛ یوسف، 12:108)۔ مزید یہ کہ اس دعوتی ذمہ داری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اُمت کے لوگ تمام دنیا میں  مسلم رخی تحریکیں چلائیں، بلکہ اُنہیں لازمی طورپر غیر مسلم رخی تحریکیں چلانا ہے۔ مسلم رخی تحریک یا ملت رخی تحریک امت کا داخلی مسئلہ ہے، جب کہ غیر مسلم رخی تحریک، خارجی معنوں میں  اُمّت کی لازمی ذمه داری ہے۔

علمائے اسلام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ دعوت کے بغیر جہاد نہیں۔ ابن رشد نے الفصل الرابع فی شرط الحرب کے تحت لکھا ہے: فَأَمَّا شَرْطُ الْحَرْبِ فَهُوَ بُلُوغُ الدَّعْوَةِ بِاتِّفَاقٍ، أَعْنِي أَنَّهُ لَا يَجُوزُ حِرَابَتُهُمْ حَتَّى يَكُونُوا قَدْ بَلَغَتْهُمُ الدَّعْوَةُ، وَذَلِكَ شَيْءٌ مُجْمَعٌ عَلَيْهِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ؛ لِقَوْلِهِ تَعَالَى:وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولا[الاسراء،17:15](بدایۃ المجتہد۱؍۳۸۶)۔ یعنی جنگ کی شرط متفقہ طورپر یہ ہے کہ ان لوگوں تک دعوت پہنچ چکی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سے اس وقت تک جنگ جائز نہیں جب تک کہ انہیں دعوت نہ پہنچ جائے۔

اس معیارکی روشنی میں  دیکھيے تو معلوم ہوگا کہ پچھلے تقریباً تین سو سال سے مسلم رہنما جہاد کے نام پر غیر قوموں سے جو لڑائیاں لڑ رہے ہیں ان میں  سے کوئی بھی جہاد نہیں۔ اور اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ یہ لڑائیاں دعوت و تبلیغ کے بغیر لڑی گئیں۔ مثلاً شاہ ولی اللہ دہلوی کی (بالواسطہ) جنگ مراٹھوں سے، شہیدَین کی جنگ سکھوں سے، علمائے ہندکی جنگ انگریزوں سے، عربوں کی جنگ اسرائیلیوں سے، پاکستانیوں اور کشمیریوں کی جنگ ہندوستانيوں سے، فلپائنی مسلمانوں کی جنگ وہاں کے عیسائیوں سے، چیچن مسلمانوں کی جنگ روسیوں سے، وغیرہ۔یہ اور موجودہ زمانے کی دوسری لڑائیاں جو مسلم رہنما لڑتے رہے یا لڑ رہے ہیں، ان میں  سے کوئی بھی جہاد فی سبیل اللہ نہیں۔ کیوں کہ یہ لڑائیاں دعوت و تبلیغ کی شرط کے بغیر شروع کردی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ کی یہ تمام لڑائیاں حبطِ اعمال کا شکار ہوگئیں۔ مسلمانوں کی یک طرفہ تباہی کے سوا ان کا اور کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوا۔

کسی غیر مسلم قوم کے خلاف جہاد(بمعنٰی قتال) چھیڑنے کے لیے یہ وجہ کافی نہیں ہے کہ اس نے مسلمانوں پر ملک و مال کے اعتبار سے کوئی نقصان پہنچایا ہو۔ ایسے کسی مسئلہ کے حل کے لیے پر امن تدبیر ہے، نہ کہ متشددانہ جنگ۔ غیر مسلموں کے سلسلہ میں  مسلمانوں کی اول و آخر ذمے داری دعوت و تبلیغ ہے۔ جہاد (بمعنٰی قتال) صرف مخصوص اور متعین شرطوں ہی پر جائز ہے، اور موجودہ زمانہ میں  یہ شرطیں کسی بھی مقام کے مسلمانوں کے حق میں  موجود نہیں۔

کسی قوم کے خلاف دعوت کے بغیر جہاد چھیڑنا نہایت سنگین معاملہ ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام نے صرف یہ کیا تھا کہ دعوت کی تکمیل سے پہلے انہوں نے اپنی مدعو قوم سے ہجرت کا معاملہ کیا تو الله نے ان كي پكڑ كي۔ اب وہ لوگ جنہوں نے سرے سے دعوت کا عمل ہی نہ کیا ہو، اور پھر صرف مادّی نزاع کی بنا پر اپنی مدعو قوم کے خلاف مسلّح جنگ چھیڑ دیں، اُن کا معاملہ حضرت یونس کے مقابلہ میں  اللہ کی نظر میں  کتنا زیادہ سنگین ہوگا، اس کا تصور بھی لرزا دینے کے لیے کافی ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom