کشتی نوح یا دابہ

قرآن کی سورہ النمل میں یہ آیت آئی ہے:وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ(27:82)۔ یعنی جب اُن پر بات آپڑے گی تو ہم اُن کے لیے زمین سے ایک دابہ نکالیں گے ،جو اُن سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

قرآن اور حدیث دونوں میں بتایا گیا ہے کہ قیامت سے پہلے ایک دابہ نکلے گا۔ دابہ کا ظہور گویا انسانی تاریخ کے ایک دور کا خاتمہ اور دوسرے دور کے آغاز کی علامت ہوگا۔ دابه كا ظهور عملاً سارے انسانوں کے لیے آخری اتمامِ حجت کے ہم معنی ہوگا۔ اس کے بعد وہی واقعہ زیادہ بڑے پیمانے پر ہوگا جو حضرت نوح کے زمانے میں پيش آيا تھا، یعنی دوبارہ ایک بڑے طوفان کے ذریعے انسانوں میں سے صالح افراد کو بچالینا اور غیر صالح افراد کو ہلاک کردینا۔مگر يه طوفان قيامت كا طوفان هوگا۔

حدیث کی کتابوں میں دابہ کے بارے میں جو روایتیں آئی ہیں، اُن میں زیادہ مستند اور معتبر روایت وہ ہے جو صحیح مسلم میں آئی ہے۔ اِس میںصرف یہ بتایاگیا ہے کہ قیامت سے پہلے ایک دابہ نکلے گا (صحیح مسلم، حديث نمبر158 )۔

 اِس روایت میں اُن باتوں میں سے کوئی بات نہیں ہے، جو دوسری روایتوں میںآئی ہے۔مثلاً دابه كے ساتھ موسي كا عصا هونا اور سليمان كي انگشتري هونا، وغيره۔ ان دوسري روايات ميں كافي تعارض پايا جاتاهے، اس ليے محقق علما نے صحيح مسلم كي مذكوره روايت كے علاوه، دوسري روايتوں كو عام طورپر ضعيف يا موضوع بتايا هے۔ مثلاً امام رازي، علامه آلوسي، علامه الباني، وغيره۔ اس معاملے ميں صحيح مسلك يه هے كه دابه كو صرف دابه كے معني ميں ليا جائے، اور اس سے منسوب بقيه تفصيلات كو غيرمعتبر سمجھ كر اُن كو نظر انداز كرديا جائے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom