برطانیہ کی مثال

برٹش ایمپائر (British Empire)کی ایک عظیم تاریخ ہے، اپنے عروج کے زمانے میں  وہ اتنا بڑا تھا کہ یہ کہا جانے لگا کہ برطانی ایمپائر میں  سورج کبھی نہیں ڈوبتا:

It had been said that the sun never sets on the British flag.

آخری زمانے میں  قانونِ فطرت کے تحت برٹش ایمپائر میں  کمزوری آئی ۔ لیکن برٹش ایمپائر کے سیاسی ذمہ داران اس کے لیے تیار نہیں تھے کہ وہ برٹش ایمپائرکا خاتمہ کریں۔ برطانیہ کے پرائم منسٹر ونسٹن چرچل (1874-1965)نے کہا تھا کہ میں  اس سیٹ پر اس لیے نہیں آیاہوں کہ میں  برطانی سلطنت کے خاتمے کی صدارت کروں:

I have not become the King's First Minister in order to preside over the liquidation of the British Empire.

مگر دوسری عالمی جنگ (1939-1945) کے بعد برطانیہ کی فوجی طاقت کمزور ہوگئی۔ بظاہر یہ ممکن نہیں رہا کہ برطانیہ اپنے ایمپائر کو باقی رکھے۔ اس وقت برطانیہ میں  ایک تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک کا نام فیبین سوسائٹی (Fabian Society)تھا۔ اس تحریک کا ایک مقصد ڈی کالونائز  ( decolonize)کرنا۔

فیبین سوسائٹی کے ایک ممبر لارڈ اٹلی(Clement Richard Attlee, 1883-1967) ونسٹن چرچل کے بعد برطانیہ کے پرائم منسٹر بنے۔ لارڈ اٹلی نے بے لاگ طور پر صورت حال کا جائزہ لیا۔ انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ انڈیا اور دیگر ممالک کو یک طرفہ طور پر آزاد کردیا جائے۔ اسی کے مطابق انڈیا 1947 میں  برطانیہ کے سیاسی اقتدار سے آزاد ہوا۔

برٹش ایمپائر برطانیہ کے لیے ایک قومی عظمت کا معاملہ تھا۔ برطانیہ کے لیے لوگ اپنی اس قومی عظمت پر فخر کرتے تھے۔ مگر جب حالات بدل گئے تو برطانیہ کے لوگوں نے یو ٹرن (u-turn) لیا۔ انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ انھیں ماضی کی عظمت سے باہر نکلنا ہے، اور حالات کے مطابق اپنے قومی تعمیر کی ری پلاننگ کرنا ہے۔ چنانچہ لارڈ اٹلی کی لیڈر شپ میں  انھوں نےایسا ہی کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ برطانیہ کے لوگ اپنی قومی ترقی کو نئی بنیاد پر قائم رکھنے میں  کامیاب ہوگئے۔

اسی قسم کی سیاسی صورت حال موجودہ زمانے میں  مسلمانوں کے ساتھ پیش آئی ہے۔ مسلمانوں نے بعد کے زمانے میں  دنیا کے بڑے رقبے میں  اپنا سیاسی ایمپائر قائم کرلیا۔ پھر مسلم ملت میں  زوال کا دور آیا۔ رفتہ رفتہ ان کا یہ حال ہوا کہ ان کی سیاسی عظمت (political glory) کا خاتمہ ہوگیا۔

اس کا سبب تمام تر داخلی تھا، مگر مسلمانوں نے اس کو عملی طور پر قبول (accept) نہیں کیا۔ وہ اس کی ذمہ داری دوسروں کے اوپر ڈالتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں  عمومی طور پر منفی سوچ (negative thinking) آگئی۔ وہ اپنی سابقہ پولیٹکل عظمت کو واپس لانے کی کوششیں کرنے لگے۔ مگر یہ ایک غیر حقیقی منصوبہ تھا، جو آخری حد تک ناکام رہا۔

مسلمانوں کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ ماضی (past)میں  جینا مکمل طور پر چھوڑ دیں، اور حال (present)کے اوپر دوبارہ اپنے قومی عمل کی ری پلاننگ کریں۔ قدیم زمانے میں مسلم ایمپائر جن حالات کے تحت قائم ہوئے تھے، وہ حالات اب ختم ہوچکے ہیں۔ اب نہ مسلمانوں کے لیے اور نہ کسی اور قوم کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ قدیم طرز کا پولِٹکل ایمپائر دنیا میں  قائم کریں۔اس معاملے میں  مسلمان اگر حقیقت پسندانہ انداز میں  سوچیں ،تو وہ نئے حالات کے امکان کو دریافت کرلیں گے۔ اس کے بعد ان کے لیے یہ ممکن ہو جائے گا کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی حیثیت کو دوبارہ نئے عنوان سے حاصل کرلیں۔

کسی قوم کے لیے عروج و زوال کا واقعہ سبق کے لیے ہوتا ہے۔ برطانیہ نے اپنے زوال کے واقعہ کو سبق کے معنی میں  لیا، اس بنا پر ان کو بہت جلد معلوم ہوگیا کہ یہ وقت ان کے لیے ری پلاننگ کا ہے۔ مسلمان عملاً اس راز سے بے خبر رہے، اس لیے زوال کے بعد اپنی قومی ترقی کی ری پلاننگ کے لیے وہ حقیقت پسندانہ منصوبہ بنانے میں  ناکام رہے۔ یہی سبب ہے موجودہ زمانے میں  مسلمانوں کی ناکامی کا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom