بابری مسجد کا سبق

ایودھیا (انڈیا) میں 1528-29ءمیں  ایک مسجد کی تعمیر کی گئی۔ یہ مسجد مغل بادشاہ بابر کے گورنر میر باقی نے تعمیر کرایا تھا۔ اس بنا پر اس کا نام بابری مسجد رکھا گیا تھا۔اس مسجد کے بارے میں  اول دن سے ہندووں کو یہ شکایت تھی کہ وہ رام چبوترہ کی زمین پر بنائی گئی ہے۔ اس بنا پر یہ مسجد اول دن سے متنازعہ مسجد تھی۔ اس مسجد کے معاملے میں  ہندؤوں کے درمیان ناراضگی پائی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ آزادیٔ ہند (1947) کے بعد بی جے پی کی ایک تحریک کے دوران ا س کو ڈھا دیا گیا۔ یہ واقعہ 6 دسمبر 1992 کو پیش آیا۔ اس کے بعد مسجد کی جگہ ایک عارضی مندر (makeshift temple) بنا دیا گیا۔

اس واقعہ کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں میں  پر شور تحریک اٹھ کھڑی ہوئی۔ تمام مسلم رہنماؤں کا یہ متفقہ مطالبہ تھا کہ بابری مسجد کو دوبارہ اس کے سابقہ جگہ پر بنایا جائے۔ راقم الحروف نے محسوس کیا کہ یہ مطالبہ عملا ًایک ناممکن چیز کا مطالبہ ہے۔ اب مسلمانوں کو ایک ایسی چیز کا مطالبہ کرنا چاہیے جو نئے حالات میں  قابل عمل مطالبہ ہو۔ چنانچہ میں  نے یہ تجویز پیش کی کہ مسلمان بابری مسجد کے ری لوکیشن (relocate) پر راضی ہوجائیں۔ ہندو سائڈ نے اس تجویز کو فوراً مان لیا۔ مگر انڈیا کی مسلم قیادت ، باریش قیادت اور بےریش قیادت، دونوں نے متفقہ طور پر اس کو نامنظور کردیا، اوروہ اس مطالبے پر مصر رہے کہ بابری مسجد کو دوبارہ وہیں بنا یا جائے، جہاں وہ پہلے تھی۔ یہ مطالبہ جدید حالات کے اعتبار سے قطعی طور پر ناقابل عمل تھا۔ چنانچہ تقریباً 25 سال گزرگئے، اور مسلم جانب سے مسلسل کوشش کے باوجود ابھی تک یہ معاملہ غیر حل شدہ حال میں  پڑا ہوا ہے۔

اگرمسلم رہنماؤں کو ری پلاننگ کی اہمیت معلوم ہوتی تو وہ فوراَری لوکیشن کی تجویز کو مان لیتے ، اور اب تک وہاں کسی قریبی علاقے میں  دوبارہ بابری مسجد کے نام پر ایک اسلامک سینٹر بن چکا ہوتا۔ مسجد کو ری لوکیٹ کرنے کا طریقہ عالم عرب میں  عام طور پر اختیار کیا جا چکا ہے۔ پھر انڈیا کے مسلم رہنماؤں کےلیے یہ کیوں قابل قبول نہ ہوسکا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ عرب دنیا میں  کمپلشن (compulsion) کی بنا پر کوئی دوسرا آپشن (option) موجود نہ تھا، جب کہ انڈیا میں  آزادی کی بنا پر کوئی جبر موجود نہ تھا، اور مسلم رہنماؤں کو شعوری طور پر یہ معلوم ہی نہ تھا کہ ری پلاننگ بھی اسلام کا ایک مسلمہ اصول ہے۔

اس معاملے میں  خود پیغمبر اسلام کے زمانے کی ایک رہنما مثال موجود تھی۔ وہ یہ کہ پیغمبر اسلام کی نبوت سے پہلے قدیم مکہ میں  شدید بارش ہوئی ، اور اس بنا پر کعبہ کی عمارت کو نقصان پہنچا تھا۔ اس وقت قدیم مکہ کے مشرک سرداروں نے کعبہ کی عمارت از سر نو بنائی۔ مگر کسی وجہ سے انھوں نے ایسا کیا کہ کعبہ کے رقبہ کے ایک تہائی حصہ کو غیر مسقف حالت میں  چھوڑ دیا، اور بقیہ حصہ میں  کعبہ کی موجودہ عمارت بنا دی۔ یہ غیر مسقف رقبہ بدستور سابق حالت میں  موجود ہے۔اس اعتبار سے دیکھیے تو خود کعبہ کی موجودہ عمارت گویا کہ ری لوکیشن کی ایک مثال ہے۔ کعبہ کی قدیم عمارت جو حضرت ابراہیم نے بنائی تھی، وہ لمبی عمارت تھی۔ جب کہ کعبہ کی موجودہ عمارت ایک چوکور عمارت ہے۔ یہ گویا کعبہ کی عمارت کو ری لوکیٹ کرنے کی ایک مثال ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پیغمبر اسلام نے اس ری لوکیشن کو عملاً تسلیم کرلیا۔ انھوں نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ کعبہ کو دوبارہ اس کی قدیم بنیاد پر تعمیر کیا جائے۔

ری لوکیشن کا مطلب یہ ہے کہ ایک بلڈنگ کو اس کی جگہ بدل کر نئی جگہ پر اسی ساخت کے مطابق بنادیا جائے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں  لوگوں نے جگہ جگہ مسجدیں بنا لی تھیں۔ بیسویں صدی میں  جب عربوں کے پاس تیل کی دولت آئی تو انھوں نے اپنے شہروں کو پلاننگ سٹی کے انداز میں  ڈیولپ کرنا شروع کیا۔ اس تعمیری منصوبہ میں  جگہ جگہ مسجدیں حائل ہورہی تھیں۔ تو یہ فیصلہ کیا گیا کہ مسجدوں کو ری لوکیٹ کرکے شہری منصوبہ کی تکمیل کی جائے۔ یہ منصوبہ علماء کے فتویٰ کے مطابق تھا۔ چنانچہ عرب ملکوں میں  بڑی تعداد میں  مسجدیں ری لوکیٹ کی گئیں، اور ہر جگہ کے علماء نے اس کو ایک درست عمل کے طور پر تسلیم کرلیا۔ عرب دنیا کی یہ نظیر کافی تھی کہ ہندوستان میں  بھی اس کو اختیار کرلیا جائے۔ مگر ہندوستانی علماء کےعدم اتفاق کی بنا پر ایسا نہ ہوسکا۔          

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom