مسلمان اور دور حاضر
آج کل کے علماء جب مسلمانوں کے ’’جدید مسائل‘‘ پر لکھتے اور بولتے ہیں تو وہ عام طور پر قدیم فقہاء کے فتاویٰ کا حوالہ دیتے ہیں۔ وہ قدیم فقہی جزئیات کو ڈھونڈ کر نکالتے ہیں۔ وہ ابن تیمیہ اور دوسرے ائمہ کے حوالے دیتے ہیں۔اس قسم کے حوالے بلاشبہ درست نہیں۔ قدیم فقہا کا ذہن مسلم حکمرانی کے دور میں بنا تھا، ان حضرات کے فتاویٰ آج کے حالات میں قابل انطباق (applicable) نہیں۔
قدیم فقہا ء کا ذہن اپنے زمانی حالات کی بنا پر اس طرح بنا تھا کہ وہ ایک طبقہ کو حاکم اور دوسرے طبقہ کو محکوم سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک ایک علاقے کی حیثیت بلاد الکفار کی تھی ، اور دوسرے علاقے کی حیثیت بلاد المسلمین کی۔ وہ اپنے اس ذہن کی بنا پر دنیا کو دارالاسلام اور دار الکفر کی اصطلاحوں میں تقسیم کیے ہوئےتھے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ جب کوئی مسئلہ پیش آتا ہے، تو ہمارے علماء انھیں اصطلاحات یا اسی فریم ورک (framework)میں اپنا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اس معاملہ میں قدیم علماء کے حوالے پیش کرتے ہیں۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ ان جوابات کے باوجود اصل مسئلہ بدستور باقی رہتا ہے۔ وہ نہ مسلمانوں کے ذہن کو مطمئن کرپاتا، اور نہ اصل مسئلے کو حل کرتا۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو جاننا چاہیے کہ اب زمانہ یک سر بدل چکا ہے۔ اب سیکولرزم اور جمہوریت کا زمانہ ہے۔ قدیم طرز کی تقسیم اب قابل عمل نہیں رہی۔ آج کے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ جمہوری انداز میں سوچیں، وہ سیکولر انداز میں اپنے مسائل کا حل تلاش کریں۔ اب اگر بدستور انھوں نے مسلم اور غیر مسلم کے لیے قدیم انداز کی تقسیم کو جاری رکھا تو آج کی دنیا میں ان کی فکر غیرمتعلق (irrelevant) ہوجائے گی۔ آج کے زمانے کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ آج کے ذہن کے مطابق ساری دنیا دار الانسان ہے۔ ذاتی عقیدہ اور عبادت کے سوامسلمانوں کو ہر معاملہ میں آفاقی ذہن کے ساتھ رہنا ہوگا، ورنہ وہ لوگوں کی نظر میں آج کے زمانے کے لیے مس فٹ (misfit) قرار پائیں گے۔