خالصہ تحریک کا تجربہ
مہاراجہ رنجیت سنگھ (1780-1839ء) مشہور سکھ راجا تھے۔ان کی حکومت ایک بڑے رقبےپر پھیلی ہوئی تھی۔
The geographical reach of the Sikh Empire under Ranjit Singh included all lands north of Sutlej river, and south of high valleys in the northwestern Himalayas. The major towns in the Empire included Srinagar, Attock, Peshawar, Bannu, Rawalpindi, Jammu, Gujrat, Sialkot, Kangra, Amritsar, Lahore and Multan.
سکھ کمیونٹی کے درمیان خالصہ تحریک کا آغاز برٹش پیریڈ میں ہوا۔ اس کا مقصد تھا مہاراجا رنجیت سنگھ کی پولِٹکل گلوری کو واپس لانا۔ ملک کی تقسیم کے بعداس کا دائرہ محدود ہوگیا۔ مگر 1979 میں خالصتان نیشنل موومنٹ کے ذریعہ اس کا احیاء ہوا۔ اس کے بعد سکھ دانشوروں نے محسوس کیا کہ ان کی خالصہ تحریک کاؤنٹر پروڈیکٹو (counter-productive)ثابت ہورہی ہے۔ بظاہر اس کا کوئی مثبت نتیجہ نکلنے والا نہیں ۔ اس سے سکھ کمیونٹی کے دانشوروں میں نئی سوچ جاگی۔ انھوں نے اپنی کمیونٹی کے اندر وہی ذہن پیدا کیا جس کو ہم نے ری پلاننگ کہا ہے۔ یعنی مہاراجا رنجیت سنگھ کے دور کو گزری ہوئی تاریخ کا حصہ قرار دینا، اور نئے حالات کے تحت اپنے عمل کی ری پلاننگ کرنا۔
کچھ سکھ دانشوروں نے اپنی کمیونٹی کو بتایا کہ انڈیا کی آزادی(1947) کے بعد سکھ کمیونٹی نے انڈیا میں کافی ترقی کی ہے۔ انڈیا میں ان کی تعداد صرف دو فیصد ہے، مگر عملاً وہ انڈیا کی بیس فیصد (20%) اقتصادیات (economy) کو کنٹرول کررہے ہیں۔ اس کے بعد خالصہ تحریک کے لیڈر سردار جگجیت سنگ چوہان (وفات2007) اپنی کمیونٹی میں غیر مقبول شخصیت بن گئے۔ اب سکھ کمیونٹی کے لوگوں نے ری پلاننگ کے ذہن کے تحت عمل کرنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ اب پنجاب انڈیا کے خوشحال ریاستوں میں سے ایک ہے۔
سکھ کمیونٹی کی یہ مثال فلسطین اور کشمیر پر پوری طورح منطبق ہوتی ہے۔ اگر کشمیر اور فلسطین کے مسلمان اس تجربے سے سبق لیں، اور اپنی قومی جدو جہدکی ری پلاننگ کریں، تو بلاشبہ وہ ایک نئی تاریخ بنا سکتے ہیں۔ دونوں علاقوں میں ترقی کے غیر معمولی مواقع موجود ہیں، جو غیر حقیقت پسندانہ مزاج کی بنا پر ناقابل استعمال پڑے ہوئے ہیں۔ اگر فلسطین اور کشمیر کے مسلمان ری پلاننگ کے راز کو جانیں، تو وہ بلاشبہ اپنے لیے ایک عظیم مستقبل پیدا کرسکتے ہیں۔
موجودہ زمانے میں نہ صرف کشمیر اور فلسطین بلکہ تمام دنیا کے مسلمان منفی سوچ میں جی رہے ہیں۔وہ دوسروں کو ظالم اور اپنے کو مظلوم سمجھتے ہیں۔ اس ذہن کی بنا پر ان کے اندر مثبت سوچ (positive thinking) کا ڈیولپمنٹ نہیں ہوا۔ وہ اپنے ماضی کی گلوری کو جانتے ہیں، لیکن وہ حال کے مواقع سے بے خبر ہیں۔ وہ شکایت کلچر کو جانتے ہیں، لیکن وہ مبنی بر حقیقت منصوبہ بند ی سے واقف نہیں۔ ان کی سوچ اپنے مفروضہ ظالموں کی شکایت پر قائم ہے۔ اس بنا پر وہ اپنے آپ کو مظلومیت کے خانے میں ڈالے ہوئے ہیں۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اگر اس منفی سوچ سے باہر آئیں تو وہ دریافت کریں گے کہ فیصلے کی جو بنیاد زمانے نے فراہم کی ہے، وہ عین ان کے حق میں ہے۔
آج کا زمانہ پوری طرح ایک بدلا ہوا زمانہ ہے۔ لیکن مسلمان گزرے ہوئےماضی کے دور میں جی رہے ہیں۔ وہ عملاً تاریخ کے قیدی (prisoners of history) بنے ہوئے ہیں۔ یہی مسلمانوں کا اصل مسئلہ ہے، اور اسی کی اصلاح سے ان کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔
لکھنؤ کے ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی (1913-1974)مسلم مجلس مشاورت کے تاسیسی صدر تھے۔ انھوں نے ایک روزنامہ اردو اخبارنکالا تھا، قائد۔ اس میں انھوں نے اپنےایک مضمون میں لکھا تھا کہ مسلم صحافت ایک احتجاجی صحافت (protestant journalism) ہے۔ یہ مسلمانوں کی موجودہ زمانے کی پوری صحافت پر صادق آتا ہے۔ ہندوستان کے مسلمان کو اس کے بجائے تخلیقی صحافت (creative journalism) کو وجود میں لانا ہوگا۔ اس کے بعد ہی وہ آج کی دنیا میں اپنے لیے کوئی نیا دور پیدا کرسکتے ہیں۔ شکایت اور احتجاج کے ذریعہ انھیں کچھ ملنے والا نہیں۔