توحید ایمپائر

پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنا پیغمبرانہ مشن شروع کیا ۔ یہ مشن توحید کا مشن تھا۔ یعنی توحید کو نظریاتی اعتبار سے سب سے زیادہ برترنظریہ بنا دینا ۔ مکہ کے سرداروں نے ایک بار آپ کو بلایا، آپ سے پوچھا کہ آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں۔ پیغمبر اسلام نے جواب دیا: كلمة واحدة تعطونيها تملكون بها العرب، وتدين لكم بها العجم (سیرت ابن هشام، جلد 1،صفحہ 417)۔ یعنی میں صرف ایک کلمہ چاہتاہوں ، تم وہ کلمہ مجھ کو دے دو، تم عرب کے مالک ہوجاؤ گے، اور عجم تمھارے آگے جھک جائیں گے۔ یہاں کلمہ کا مطلب ہے آئڈیالوجی۔

پیغمبر اسلام نے یہ بات سیاسی اقتدار کے معنی میں نہیں کہی تھی۔ بلکہ وہ نظریاتی غلبہ کے معنی میں تھی۔ اللہ تعالی کو یہ مطلوب تھا کہ دنیا میں ایک ایسا انقلاب آئے، جب کہ تمام دلائل توحید کے حق میں ہوجائیں، اور تمام مواقع توحید کے موافق ہوجائیں۔ یہی وہ بات ہے جو آپ سے پہلے حضرت مسیح نے ان الفاظ میں کہی تھی— تم اس طرح عبادت کرو:آسمان میں رہنے والے اے ہمارے باپ، تیرا نام مقدس ہے۔ تیری بادشاہی آئے، جس طرح کہ تیرا منشا آسمان میں پورا ہوتا ہے، اسی طرح اس دنیا میں بھی پورا ہو:

So pray this way:   Our Father in heaven, may Your name be honoured, ​may Your kingdom come,   may Your will be done on earth as it is in heaven.   (Matthew, 6:9-10)

قرآن کے مطابق، اللہ کے دین میں جبر نہیں (2:256)۔ البتہ اللہ کو یہ مطلوب ہے کہ دین کو آخری حد تک مدلّل بنا دیا جائے۔ اس کےبعد انسان کا اپنا اختيار ہے کہ وہ اس کو مانتا ہے یا اس كا انكار كرتا هے (18:29)۔ اس مقصد کے حصول کے لیے یہ ضرورت تھی کہ دین کے موافق ایک انقلاب آئے۔ اس انقلاب کے لیے موحد انسانوں کی ایک ٹیم درکار تھی۔ مگر کسی نبی کے زمانے میں ایسی ٹیم نہ بن سکی۔ اس لیے پچھلے انبیاء کے زمانے میں ان کا مشن انقلاب (revolution) تک نہیں پہنچا۔

پیغمبر ابراہیم کے ذریعے اللہ نے یہ منصوبہ بنایا کہ خصوصی اہتمام کے ذریعے ایسی مطلوب ٹیم تیار کی جائے۔ اس مقصد کے لیے ساڑھے چار ہزار سال پہلے ابراہیم علیہ السلام نے یہ قربانی کی کہ اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو عرب کے صحرامیں بسادیا۔ اس کے بعد دوہزار سال سے زیادہ مدت میں توالد و تناسل کے ذریعے صحرائی ماحول میں ایک نئی نسل تیار ہوئی۔ تاریخ میں اس نسل کو بنواسماعیل کہا جاتا ہے۔ محمد صلى الله عليه وسلم اور آپ کے اصحاب اسی نسل کے منتخب افراد تھے۔

مطلوب انقلاب اچانک نہیں ظہور میں آسکتا تھا۔اس کے لیے ضرورت تھی کہ تاریخ میں ایک نیا عمل (process) شروع کیا جائے، جو انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، مختلف مراحل سے گزر كراپنے نقطۂ انتہا (culmination) تک پہنچے۔ یہ عمل عرب میں شروع ہوا، اور مغرب میں جدید تہذیب (modern civilization)کی صورت میں اپنی تکمیل تک پہنچا۔

اس انقلاب کے دو پہلو تھے۔ ایک یہ تھا کہ علوم کی ترقی اس طرح ہو کہ تمام علمی اور سائنسی دلائل دینِ خداوندی کی تصدیق بن جائیں۔ یہ مستقبل میں پیش آنے والا واقعہ تھا ، جس کی پیشین گوئی قرآن میں ان الفاظ میں کی گئی تھی: سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (41:53)۔یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ قرآن حق ہے۔

اس انقلاب کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ عملی اعتبار سے یہ اسباب دینِ خداوندی کے مويّد (supporter) بن جائیں۔ یہ انقلاب صرف اہل ایمان کے ذریعے نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لیے اللہ نے اس کے لیے دوسری قوموں کو بھی اس عمل کا موید بنا دیا۔ یہ پیشین گوئی ایک حدیثِ رسول میں اس طرح ملتی ہے: إن الله ليؤيد هذا الدين بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، حدیث نمبر3062)۔ یعنی بیشک اللہ ضرور اس دین کی مدد کرے گا، فاجر لوگوں کے ذریعے۔

اکیسویں صدی میں یہ تائیدات اپنی آخری صورت میں حاصل ہوچکی ہیں۔ مثلاً موجودہ زمانے میں قول و عمل کی آزادی کا انسان کے لیے ایک ناقابلِ تنسیخ حق قرار پانا، ٹکنالوجی کی ترقی کے ذریعے ہر قسم کے امکانات کا اعلی سطح پر کھل جانا، پرامن طریقۂ کا ر کے ذریعہ ہر مقصد کے حصول كاممکن ہوجانا، ساری دنیا میں کھلا پن (openness) کا ماحول قائم ہوجانا، وغیرہ۔

ابتدائی دور میں، اس عمل کو مسلسل طور پر جاری رکھنے کے لیے ایک تائیدی شلٹر (supporting shelter)درکار تھا۔ اہل اسلام کو سیاسی طاقت دے کر اس شلٹر کا انتظام کیا گیا۔ انیسویں صدی کے آخر تک اہل اسلام کی یہ سیاسی طاقت اس عمل کو تائیدی شلٹر فراہم کرتی رہی۔ یہاں تک کہ وہ اپنے آخری منزل پر پہنچ گیا۔

بیسویں صدی میں وہ دور آگیا، جب کہ یہ عمل اتنا طاقت ور ہوچکا تھا کہ وہ خود اپنی طاقت سے جاری رہ سکے۔ بیسویں صدی میں مسلمانوں کی سیاسی طاقت کمزور ہوگئی۔ لیکن مطلوب عمل خود اپنی طاقت سے مسلسل طور پر جاری رہا۔ جدید دور میں ماڈرن تہذیب کا فروغ، اور 1945 میں اقوامِ متحدہ (UNO) کا قیام وغیرہ ، وہ واقعات ہیں، جب کہ یہ عمل امکانی طور پر اپنی آخری تکمیل تک پہنچ گیا۔ اب تمام دلائل اور تمام مواقع توحید کی آیڈیالوجی کے لیے پوری طرح موافق ہوچکے ہیں۔ اب اہل اسلام کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ اس انقلاب کو شعوری طور پر سمجھیں، اور دانش مندانہ منصوبہ بندی کے تحت توحید کی آیڈیالوجی کو اسی طرح ایک معلوم حقیقت بنادیں، جس طرح موجودہ زمانےمیں سائنس کا علم لوگوں کے لیے ایک معلوم حقیقت بن چکا ہے۔

قرآن میں پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کے بارے میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ اللہ نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ وہ تمام دین پر اس کوغالب کردے( 9:33)۔ اس غلبہ سے مراد سیاسی غلبہ نہیں ہے، بلکہ نظریاتی غلبہ ہے۔مزید یہ کہ اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ غلبہ کا یہ واقعہ پیغمبر اسلام کے اپنے زمانے میں مکمل طور پر ظاہر ہوجائے گا ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخِ انسانی میںایک انقلابی عمل (revolutionary process)جاری ہوگا، جو آخرکار دینِ حق کے کامل نظریاتی غلبہ کے ہم معنی بن جائے گا۔

قرآن و حدیث میں کچھ بیانات حال (present) کی زبان میں ہیں، اور کچھ بیانات مستقبل (future) کی زبان میں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی کچھ تعلیمات وہ ہیں، جو پیغمبر اسلام کے اپنے زمانے میں پوری ہونے والی تھیں، اور کچھ تعلیمات وہ ہیں ،جو رسول اور اصحابِ رسول کے بعد کے زمانےمیں اپنی تکمیل تک پہنچنے والی تھیں۔

پہلی قسم کی تعلیم کی ایک مثال قرآن کی یہ آیت ہے : الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (5:3)۔ یعنی آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو پورا کردیا۔ قرآن کی اس آیت میں تکمیل سے مراد قرآن کے نزول کی تکمیل ہے۔ قرآن (کتاب اللہ) کا نزول اپنی آخری صورت میں ہوچکا۔ اب قیامت تک کوئی نیا قرآن جزئی یا کلی طور پر اترنے والا نہیں۔

قرآن کی اس آیت میں اکمالِ دین کا لفظ ہے۔ اکمالِ دین میںباعتبارِ تفصیل یہ بات بھی شامل ہے کہ اسلام کے دورِ اول میں قرآن مدون ہوا، پیغمبر کا اسوہ (example) ہر پہلو سے مستند طور پر قائم ہوگیا، کعبہ کو بتوں سے پاک کرکے توحید کا مرکز بنادیا گیا،امت مسلمہ عملاً وجود میں آگئی، وغیرہ۔دوسری قسم کی تعلیم کی ایک مثال قرآن کی یہ آیت ہےيُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ (9:32)۔یعنی وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنے منھ سے بجھا دیں حالانکہ اللہ کو اس کے علاوہ کوئی بات منظور نہیں کہ وہ اپنے نور کو پورا کرے، خواہ منکروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنے منھ سے بجھا دیں— اس آیت کا تعلق پوری انسانی تاریخ سے ہے۔ تاریخ میں مسلسل طور پر اہلِ انکار یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ ہدایت کے بارےمیں اللہ کا منصوبہ مکمل نہ ہونے پائے۔ مگر قرآن کے نزول کے بعد اللہ نے یہ مقدر کردیا کہ اس معاملے میں کوئی چیز رکاوٹ نہ بنے، اور ہدایت کے بارے میں اللہ کا منصوبہ لازمی طور پر مکمل ہوکر رہے۔ اس طرح کی آیتوں یا حدیثوں میں مستقبل کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے ۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ مقصد خود زمانۂ رسول میں پورا نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ اس طرح پورا ہوگا کہ رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعہ تاریخ میں ایک انقلابی عمل (revolutionary proccss)جاری ہوگا۔ اس عمل کے نقطۂ انتہا (culmination) پر ایسا ہوگا کہ اتمامِ نور کے بارے میں اللہ کا منصوبہ اپنی آخری تکمیل تک پہنچ جائے گا۔

اللہ کےمنصوبے کے مطابق ، یہ عمل پوری تاریخ میں جاری رہا۔ اس عمل میں مسلم لوگوں کے علاوہ سیکولر لوگوں نے بھی حصہ لیا۔یہ عمل انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے جاری رہا۔ گویا بظاہر انسان کی آزادی قائم تھی، اور زیریں لہر (undercurrent) کے طور پر خدا کا منصوبہ بھی مسلسل طور پر جاری رہا۔ یہاں تک کہ وہ اپنی تکمیل تک پہنچ گیا۔ اسلام کی مدون تاریخ میں یہ واقعہ ایک گمشدہ کڑی (missing link) کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان تاریخ کے ایک حصے کو جانتے ہیں، اور وہ تاریخ کے دوسرے حصے سے بے خبر ہیں۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ عالمی تاریخ میں مسلمانوں نے کس طرح اپنا رول اداکیا۔ لیکن وہ اس سے بے خبر ہیں کہ عین اسی وقت سیکولر عناصر بھی مسلسل طور پر اپنا تائیدی رول اداکرتے رہے۔

اسلام کا ایک جزء اس کی آئڈیا لوجی ہے۔ یہ آئڈیا لوجی تمام تر قرآن و سنت پر مبنی ہے۔ اسلام کا دوسرا جزء اس کے تائیدی اسباب ہیں۔ اس دوسرے جزء میں دنیا کی تمام قوموں نے حصہ لیا ہے۔ مثلاً قدیم زمانہ مذہبی جبر (religious persecution) کا زمانہ تھا، آج انسان کو پورے معنوں میں مذہبی آزادی حاصل ہے۔ قدیم زمانے میں کھلاپن (openness) نہیں ہوتا تھا، آج پوری دنیا کھلے پن کے دور میں پہنچ گئی ہے۔ قدیم زمانے میں کمیونی کیشن (communication) صرف محدود طور پرہوسکتا تھا، آج ماڈرن ٹکنالوجی نے کمیونی کیشن کو لامحدود حد تک بڑھا دیا ہے۔قدیم زمانے میں بین الاقوامی مسلّمات (international norms) قائم نہیں ہوئے تھے، موجودہ زمانے میں بین الاقوامی مسلّمات بڑے پیمانے پر قائم ہوگئے ہیں۔ قدیم زمانے میں امن اور جنگ کا کوئی مسلّمه اصول نہیں تھا، آج اقوامِ متحدہ (UNO) کے ذریعے امن اور جنگ کا مسلمہ اصول وضع ہوگیا ہے، وغیرہ۔ یہ تمام مسلمات کیسے قائم ہوئے۔ اس کو وجود میں لانے میں بڑا رول سیکولر افراد نے انجام دیا ہے۔

مسلمان اگر اس حقیقت کو جان لیں تو ان کو پوری انسانی تاریخ عملاً اسلام کی تاریخ نظر آئے گی۔ جب کہ اس وقت وہ صرف مسلم تاریخ کو اسلام کی تاریخ سمجھتے ہیں۔ موجودہ حالت میں مسلمانوں کی نفسیات ہم اور وہ (we and they) کے تصور پر بنی ہے۔ لیکن اس حقیقت کو جاننے کے بعد مسلمانوں کی نفسیات ہم اور ہم (we and we) کے تصور پر قائم ہوجائے گی۔ یہ طرزِ فکر پورے معنوں میں مسلمانوں کے اندر مثبت سوچ (positive thinking) پیدا کردے گی، جو بلاشبہ ان کے لیے سب سے بڑی طاقت بن جائے گا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom