پیغمبرانہ ہدایت کی ابدیت
پیغمبر کے ذریعے خدا کی جو ہدایت آتی ہے، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ابدی ہوتی ہے۔ قرآن میں پیغمبرانہ ہدایت کو روشن آفتاب(سِرَاجًا مُنِيرًا) سے تشبیہ دی گئی ہے (الاحزاب،33:46)۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر کی ہدایت اُسی طرح ابدی ہوتی ہے، جس طرح آفتاب کی روشنی انسان کے لیے ابدی ہوتی ہے۔
اِس سے معلوم ہوا کہ تبدیلی ٔ زمانہ کے حوالے سے نئے پیغمبر کی ضرورت کو بتانا، ایک غیر متعلق (irrelevant) بات ہے۔ زمانے کی تبدیلی، یا مادّی تہذیب کی نئی ترقی کا کوئی تعلق نئی نبوت سے نہیں ہے۔ زمانے کی تبدیلی سے اگر کوئی عملی مسئلہ پیدا ہوتا ہے، تو وہ صرف نئے اجتہاد کی ضرورت کو ثابت کرتاہے، نہ کہ نئے نبی کی ضرورت کو۔مثلاً مسح علی الخفّین کے مسئلے کو لیجیے۔ قدیم زمانے میں چمڑے کے موزے ہوا کرتے تھے۔ اُس وقت چمڑے کے موزے کے حوالے سے مسح علی الخفین کا مسئلہ بتایا گیا۔ اب اون اورکاٹن، وغیرہ سے تیار کئے ہوئے موزوں کا زمانہ ہے۔ یہ تبدیلی اجتہاد کی ضرورت کو بتاتی ہے، نہ کہ نئے نبی کی ضرورت کو۔ اِس طرح کے بدلے ہوئے حالات میں صرف یہ کافی ہے کہ قرآن اور سنت کی روشنی میں صورتِ موجودہ پر شرعی حکم کا از سرِ نو انطباق (re-application) کیا جائے۔ اِسی کا نام اجتہاد ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں تھے، تو اس وقت وہاں آب پاشی (irrigation) کا مسئلہ تھا۔ لوگوں نے کہا کہ آپ خدا کے پیغمبر ہیں۔ آپ خدا کی مدد سے ہمارے اِس مسئلے کو حل کیجیے۔ آپ نے جواب دیا- مابهذا بُعثتُ إلیکم (السیرۃ النبویۃ لابن هشام، جلد 1 ، صفحہ 316)۔ یعنی میں تمھارے پاس اِس کام کے لیے نہیں بھیجا گیا ہوں:
I have not been sent to you for this purpose.
اِسی طرح جب آپ مدینہ میں تھے تو وہاں کے حالات کے اعتبار سے بعض مسائل پیدا ہوئے، جو باغ بانی (horticulture) سے تعلق رکھتے تھے۔ وہاں کے لوگوں نے اِس معاملے میں آپ سے مشورہ حاصل کرنا چاہا۔ آپ نے دوبارہ ان کو وہی جواب دیا جو آپ مکہ کے لوگوں کو دے چکے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ: أنتم أعلم بأمر دنیاکم (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2363)۔ یعنی تم اپنی دنیا کے معاملے میں زیادہ جانتے ہو:
You know better about your worldly matters.
آب پاشی، باغ بانی، فنِ تعمیراور صنعت جیسی چیزوں کا تعلق انسانی تہذیب سے ہے۔ تہذیب کا عمل ہمیشہ انسانی تحقیق وجستجو پر مبنی ہوتا ہے۔ اِس معاملے کو خدا نے انسان کے اپنے اوپر چھوڑ دیا ہے۔ تاہم جہاں تک ہدایت کا معاملہ ہے، اُس کا تعلق خدائی وحی سے ہے۔ انسان کی یہی ضرورت ہے جس کے لیے خدا نے وحی ونبوت کا سلسلہ جاری کیا۔
مشہور فرانسیسی مصنف ڈاکٹر الکسس کیرل (وفات1944 ) نے 1935 میں ایک کتاب شا ئع کی۔ اِس کتاب کا نام— انسانِ نامعلوم (Man the Unknown) تھا۔ مگر زیادہ صحیح طور پر اِس کتاب کانام— ہدایت نامعلوم (Guidance the Unknown) ہونا چاہیے۔ انسان کی صحیح ہدایت کا تعلق امورِ غیب سے ہے۔ یہ صرف خدا ہے جو امورِ غیب کا علم رکھتا ہے۔ اِس لیے صرف خدا ہی انسان کو صحیح رہنمائی دے سکتا ہے۔ ماضی میں پیغمبروں کے ذریعے یہی رہ نمائی انسان کو دی جاتی رہی۔
اب اِس خدائی رہ نمائی کا مستند متن قرآن کی صورت میں محفوظ ہے۔ اب قیامت تک کے لیے قرآن، نبوت کا بدل ہے۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ انسان اِس مستند کلامِ الٰہی (word of God) کو پڑھے، وہ اُس پر تدبر کرے، اور قیامت تک اُس سے اپنے لیے رہ نمائی لیتا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: جئت فختمتُ الأنبیاء (صحیح مسلم،حدیث نمبر 2287)۔ یعنی میں آیا اور میں نے نبیوں کی آمد کا سلسلہ ختم کردیا۔