جرمنی کی مثال
جرمنی، اڈولف ہٹلر کی قیادت میں دوسری عالمی جنگ کا سب سے بڑا پارٹنر تھا۔ یہ جنگ 1939 سے 1945 تک جاری رہی۔ اس جنگ میں پچاس ملین سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے۔ دوسرے نقصانات اس سے بھی زیادہ ہیں۔ لیکن جنگ کا خاتمہ اس طرح ہوا کہ جرمنی نے اپنے ملک کا ایک تہائی حصہ (ایسٹ جرمنی ) کھودیا تھا۔ دوسرے عظیم نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔
جنگ کے خاتمے کے بعد جرمنی نے ری پلاننگ کا طریقہ اختیار کیا۔ پہلی پلاننگ کے زمانے میں ہٹلر جرمنی کا رہنما تھا تو دوسری پلاننگ کے زمانے میں جرمنی نے اپنے مشہور اسٹیٹس مین (statesman) بسمارک (Otto von Bismarck, 1815-1898)کی فکرکو اپنا رہنما بنایا۔ بسمارک نے کہا تھا کہ سیاست ممکنات کا فن ہے:
Politics is the art of the possible. (St. Petersburgische Zeitung, Aug 11, 1867 [www.shmoop.com])
جرمنی کے اہل دماغ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ دریافت کیا کہ ان کی پہلی پلاننگ ناممکن (impossible) پر مبنی تھی۔ اب انھیں ممکن (possible) کی بنیاد پر نیا منصوبہ بنانا چاہیے۔ بعد از جنگ کے زمانےمیں جرمنی نے اسی اصول پر کام کیا۔ اس نے اپنی توجہ جنگ سے ہٹا کر پرامن ترقی پر مرتکز کردیا۔ خصوصا سائنس اور صنعت کے میدان میں ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جرمنی نے پہلے سے بھی زیادہ بڑی کامیابی حاصل کرلی۔ خاص طور پر پرنٹنگ مشین کے معاملے میں اس نے ساری دنیا میں ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔
جرمنی کی ری پلاننگ کامیاب رہی۔ جرمنی ربع صدی کےعرصے میں یورپ کا نمبر ایک صنعتی ملک بن گیا۔ اب اس کی اقتصادیات پورے یورپ میں سب سے زیادہ مستحکم اقتصادیات کی حیثیت رکھتی ہے۔ جرمنی کی یہ ترقی ایک لفظ میں ری پلاننگ کے اصول کو اختیار کرنے سے حاصل ہوئی۔
دوسری عالمی جنگ میں جرمنی نے اپنے ملک کے ایک بڑے رقبے کو کھودیا تھا۔ لیکن جنگ کے بعد مبنی بر امن ری پلاننگ کے نتیجے میں جرمنی نے دوبارہ اپنے کھوئے ہوئے حصہ کو حاصل کرلیا۔ یہ معجزاتی واقعہ 1990 میں پیش آیا۔
دوسری عالمی جنگ سے پہلے جرمنی کا نشانہ ہٹلر کی قیادت میں یہ تھا کہ جرمنی پورے یورپ کا پاليٹکل ماسٹر (political master) بنے۔ اس نشانہ میں جرمنی کو مکمل ناکامی ہوئی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی نے یہ قابل عمل نشانہ بنایا کہ وہ جرمنی کے صرف باقی ماندہ حصہ (remnant part of Germany) کو پرامن انداز میں ڈیولپ کرے۔ جرمنی کا پہلا نشانہ مکمل طور پر ناکام ہوا تھا، لیکن جرمنی کا دوسرا نشانہ ری پلاننگ کے بعد مکمل طور پر کامیاب رہا۔
جرمنی کے اس تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ زمانے میں زمینی علاقہ (territory) کی اہمیت اضافی (relative) بن چکی ہے۔آدمی کے پاس اگر چھوٹا علاقہ ہو، تب بھی وہ اعلیٰ منصوبہ بندی کے ذریعہ بڑی سے بڑی کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ اعلیٰ منصوبہ بندی میں دو چیزوں کی خصوصی اہمیت ہے۔ ایک ہے بہتر کمیونی کیشن (communication)، اور دوسری ہے بہتر تنظیم (organization) ۔
جدید جرمنی نے صرف یہ نہیں کیا ہے کہ اس نے خود کو اعلیٰ ترقی یافتہ ملک بنایا ہے۔ اسی کے ساتھ اس نے یہ بھی کیا ہے کہ دنیا کے سامنے ایک ماڈل پیش کیا ہے۔ اس بات کا ماڈل پیش کیا ہے کہ کس طرح نقصان کے باوجود دوبارہ بڑی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس سے مختلف مثال کچھ مسلم ملکوں کی ہے۔ وہ اپنےخیال کے مطابق اپنےکھوئے ہوئے علاقےکی بازیابی کے لیے لمبی مدت سے لڑائی لڑ رہے ہیں۔ مگر انھیں کوئی بھی مثبت کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ ان کو چاہیے کہ وہ جرمنی کی مثال سے سبق لیں، اور اپنے ملے ہوئے علاقے کی بنیاد پر حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی کریں، اور جدید امکانات کو استعمال کرتے ہوئے، دوبارہ بڑی کامیابی حاصل کریں۔