ڈیزرٹ تھرَپی

اللہ رب العالمین نے انسان کو پیدا کرکے کرۂ ارض (planet earth) پر آباد کیا۔ اس کو ہر قسم کے مواقع فراہم کیے۔ اور پھر اس کو پوری آزادی دے دی۔ اب یہ انسان کا اپنا اختیار ہے کہ وہ خوا ہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرکے اپنے آپ کو ابدی کامیابی کا مستحق بنائے ، اور اگر وہ اپنی آزادی کا غلط استعمال (misuse) کرتا ہے تو اس کے لیے تخلیقی منصوبہ کے مطابق ابدی ناکامی کے سوا کچھ اور مقدر نہیں۔

اللہ رب العالمین نے انسان کو عقل دی۔ اس کے اندر حق اور باطل کی تمیز رکھی۔ اس کے بعد خالق نے یہ انتظام کیا کہ ہر قوم میں  اور ہر علاقے میں  اپنے رسول بھیجے۔ جو انسان کو اس کی اپنی قابل فہم زبان میں  حق اور ناحق کا علم دیتے تھے۔ پیغمبروںنے یہ کام اعلیٰ اتمامِ حجت کی سطح پر انجام دیا۔ مگر انسان نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ پیغمبروں کی دعوت کا غیر مطلوب جواب دیا۔ اس واقعے کا ذکر قرآن میں  ان الفاظ میں  کیا گیا ہے: يَاحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ َیَسْتَهْزِؤوْنَ (36:30)۔ یعنی افسوس ہے بندوں کے اوپر، جو رسول بھی ان کے پاس آیا وہ اس کا مذاق ہی اڑاتے رہے۔

اللہ رب العالمین کو اپنے نقشۂ تخلیق (creation plan) کے مطابق یہ منظور نہیں تھا کہ وہ انسان کی آزادی کا خاتمہ کردے۔ اس لیے اس نے یہ کیا کہ انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، ہدایت کا ایک نیا نقشہ بنایا۔ اس نئے نقشے کی تکمیل کے لیے اللہ رب العالمین نے ابراہیم اور ان کی ذرّیت کو چنا۔ جن کا زمانہ 1850-2324 ق م کے درمیان ہے۔ یہ گویا رب العالمین کی طرف سے ہدایت کی ری پلاننگ کا معاملہ تھا۔

پیغمبر ابراہیم قدیم عراق میں  پیداہوئے۔ وہاں انھوں نے لوگوں کو سچائی کا راستہ دکھایا۔ لیکن قدیم عراق کے باشندے جو اس وقت شرک پر قائم تھے، پیغمبر ابراہیم کی پیروی پر راضی نہ ہوسکے۔ آخرکار پیغمبر ابراہیم نے ایک خدائی منصوبہ کے مطابق عراق کو چھوڑ دیا۔ وہ اُس صحرائی علاقے میں  آکر آباد ہوئے جہاں اب مکہ واقع ہے۔ انھوں نے اس صحرائی علاقہ میں  اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو آباد کردیا۔ جب کہ اس وقت وہاں صحرا کے سوا کچھ نہ تھا۔

اس نئی منصوبہ بندی کو ایک لفظ میں  صحرائی منصوبہ بندی (desert therapy) کہا جاسکتا ہے۔ یہ صحرائی ماحول اگرچہ انسانی آبادی کے لیے انتہائی حد تک غیر موافق تھا۔ مگر نئی پلاننگ کے لیے یہ سب سے زیادہ موزوں علاقہ تھا۔ اس صحرائی ماحول میں  فطری طور پر ایسا ہوا کہ ایک نئی نسل بننا شروع ہوئی، جو تمدن کے اثرات سے دور تھی، اور فطرت کے ماحول کے سوا کوئی اور چیز اس پر اثر انداز ہونے کے لیے موجود نہ تھی۔ فطرت کے اس ماحول میں  اسماعیل ابن ابراہیم نے ایک قبیلہ میں  شادی کی، اور پھر توالد و تناسل کے ذریعہ یہاں ایک نئی نسل بننا شروع ہوئی۔ اس صحرائی منصوبہ بندی کا ذکر صحیح البخاری کی ایک طویل روایت(حدیث نمبر3364) میں  آیا ہے۔ یہ ابراہیمی سنت ایک منصوبے کے بعد دوسرا منصوبہ بنانے کا معاملہ تھا۔ اس کے ذریعہ یہ مطلوب تھا کہ ایک نئی جاندار نسل تیار ہو، جو اپنی فطرت پر قائم ہو، اور اس بنا پر وہ سچائی کے پیغام کو آسانی کے ساتھ سمجھ جائے، اور اس کو اختیار کرلے۔یہی وہ نسل ہے جس کے اندر پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ پیدا ہوئے۔ وہ لوگ جن کو اصحاب رسول کہا جاتا ہے، وہ سب اسی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔

توقع کے مطابق یہ منصوبہ کامیاب رہا۔ رسول اور اصحاب رسول نے دعوتی جدو جہد کے ذریعہ ایک گروہ تیار کیا۔ اس گروہ نے توحید کی بنیاد پر کام کرکے ایک انقلاب برپا کیا۔ اس گروہ نے تاریخ میں  ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ ان کی قربانیوں کے نتیجے میں  یہ ہوا کہ پہلی بار انسانی تاریخ میں  ایک انقلابی عمل (revolutionary process) جاری ہوا، جس نے تاریخ کو بدل دیا۔ اس عمل کے نتیجے میں  ایک طرف دورِ شرک کا خاتمہ ہوا۔ اسی کے ساتھ دوسری طرف اس کے نتیجے میں  نیچر میں  آزادانہ تحقیق کا مزاج پیدا ہوا، اس کے بعدتاریخ میں  وہ دور آیا جس کو جدید تہذیب (modern civilization) کہا جاتا ہے۔ تاریخ میں  یہ انقلاب ری پلاننگ کے ذریعہ ظہور میں  آیا۔        

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom