امن ایک اقدام
اسلام میں جنگ، دفاع کا اشو (issue of defence) ہے۔ اور امن، اقدام کا اشو (issue of advancement) ہے۔ اسلام میں اہل ایمان کو اجازت نہیں کہ وہ اپنی طرف سے جنگ چھیڑیں ۔ البتہ جہاں تک امن کا تعلق ہے ، اہل ایمان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اسلام کی اشاعت کے لیے پرامن اقدام کا منصوبہ بنائیں۔ اسلام کا یہ اصول فطرت کے قانون پر مبنی ہے۔
فطرت کے قانون کے مطابق، جنگ کے ذریعہ کسی مثبت نتیجہ کا حصول ممکن نہیں۔ کیوں کہ جنگ سے کسی بات کا فیصلہ نہیں ہوتا، نہ ہارنے کی صورت میںاور نہ جیتنے کی صورت میں۔ جنگ میں اگر فتح حاصل ہو، تب بھی ہارنے والے فریق کے دل میں انتقام کا جذبہ بھڑک اٹھتا ہے۔ اس لیے جنگ میں فتح بھی ایک نئی جنگ کا آغاز بن جاتی ہے۔
پر امن منصوبہ بندی ہمیشہ اپنا کام کرتی ہے، پرامن منصوبہ بندی کوئی نیا مسئلہ پیدا نہیں کرتی، وہ صرف مسئلہ کے حل کی طرف لے جاتی ہے۔ پر امن منصوبہ بندی کے تحت اقدام کرنا، ایک ایسے انجام کی طرف لے جاتا ہے جہاں جنگ کا خاتمہ ہوجائے اور لوگوں کو پر امن سرگرمیوں کے لیے مواقع (opportunities) حاصل ہوجائیں۔
اسلام کے دورِ اول کی تاریخ اس اصول کی تصدیق کرتی ہے۔ پیغمبرِ اسلام صلى الله عليه وسلم کے زمانے میں اہل ایمان اور ان کے مخالفین کے درمیان کچھ لڑائیاں ہوئیں۔ مثلاً غزوۂ بدر، غزوۂ احد، غزوۂ حنین، وغیرہ۔ مگر ان لڑائیوں سےٹکراؤ ختم نہیں ہوا۔ گویا باعتبارِ نتیجہ عمل کی کوئی حد نہیں آئی۔ قرآن میں فتح کی آیت صرف صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی۔ فتح کا مطلب ہے ٹکراؤ کا خاتمہ اور پرامن سرگرمیوںکے لیے موافق ماحول پیدا ہوجانا۔کسی اور غزوہ کے بعد فتح کی آیت نہیں اتری۔
حدیبیہ کا واقعہ 6 ھجری میں پیش آیا۔ اس موقع پر فریق ثانی کی کوشش صرف یہ تھی کہ رسول اور اصحابِ رسول مکہ میں داخل نہ ہوں، اور عمرہ کیے بغیر واپس مدینہ چلے جائیں۔ مگر پیغمبر ِ اسلام صلى الله عليه وسلم نے خود اپنی طرف سے امن (peace) کی بات چیت (negotiation) شروع کی۔ اس معاملہ میں آپ اس آخری حد تک گئے کہ فریق ثانی کی تمام شرطوں کو یک طرفہ طور پر منظور کر لیا۔ صرف اس مقصد کے لیے کہ دونوں فریقوں کے درمیان صلح ہوجائے اور معتدل حالات قائم ہوجائیں۔ تاکہ کھلے طور پر اسلام کے دعوتی مشن کو جاری کیا جاسکے۔
پیغمبر ِ اسلام صلى الله عليه وسلم نے جب اس طرح فریقِ ثانی سے یک طرفہ شرطوں پر صلح کرلی تو اس کے بعد قرآن کی سورہ نمبر 48 نازل ہوئی۔ اس میں پیشگی طور پر یہ اعلان کردیا گیا کہ یہ پرامن مصالحت باعتبارِ نتیجہ ایک فتح مبین (clear victory) ہے۔ قرآن کی یہ پیشگی خبر صرف چند سالوں میں واقعہ بن گئی، پر امن اقدام باعتبارِ نتیجہ فتح ثابت ہوا۔
اسلام میں جنگ مجبوری کے تحت وقتی دفاع کے لیے ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، پر امن منصوبہ اس لیے ہوتا ہے کہ سماج کے اندر مستقل طور پر اعتدال کی حالت قائم ہوجائے۔ ہر فرد کے لیے تعمیری سرگرمیوں کے مواقع حاصل ہوجائیں۔