دنیائے فانی کا نظریہ
قرآن میں واضح الفاظ میں موجودہ دنیا کے بارے میں یہ تصور دیاگیا تھا کہ یہ زمینی سیّارہ جس پر انسان آباد ہے، اس کی ایک محدود عمر ہے۔ یہاں انسان اپنے لیے جنت (paradise)کی تعمیر نہیں کرسکتا۔ یہ دنیا عارضی طورپر امتحان کے لیے بنی ہے اور اس کے بعد یہاں سے اُن تمام چیزوں کا خاتمہ کردیا جائے گاجس کی مدد سے انسان یہاں زندہ رہتا ہے اور اپنے لیے اپنی مطلوب دنیا بنانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ یہاں اِس سلسلے میں دو آیتیں نقل کی جارہی ہیں:
1۔ يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ(14:48) ۔ یعنی جس دن یہ زمین ایک دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی، اور سب ایک زبردست اللہ کے سامنے پیش ہوں گے۔
2۔ إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى ٱلْأَرْضِ زِينَةًۭ لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًۭا.وَإِنَّا لَجَٰعِلُونَ مَا عَلَيْهَا صَعِيدًۭا جُرُزًا(18:7-8)۔یعنی جو کچھ زمین پر ہے، اس کو ہم نے زمین کی رونق بنایا ہے، تاکہ ہم لوگوں کو جانچیں کہ اُن میں کون اچھا عمل کرنے والا ہے، اور ہم زمین کی تمام چیزوں کو ایک صاف میدان بنادیں گے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایت کے مطابق، موجودہ سیّارۂ زمین پر جو زندگی بخش حالات ہیں، وہ حتمی طورپر ختم ہونے والے ہیں، اور مسلسل ان کا کاؤنٹ ڈاؤن ہو رہا ہے۔ لیکن بڑے بڑے انسانی دماغوں نے اِس کے برعکس نظریہ قائم کیا۔ سُقراط اور افلاطون اور ارسطو سے لے کر موجودہ زمانے کے رہنماؤں تک ہر ایک نے یہ نظریہ قائم کیا کہ وہ انسانیت کے مستقبل کو آئڈیل دَور کی طرف لے جارہے ہیں— آئڈیل اسٹیٹ، آئڈیل سماج اور آئڈیل نظام، وغیرہ۔ اِس معاملے میں لوگوں کا واہمہ (obsession) اتنا بڑھا ہوا تھا کہ بار بار برعکس نتیجہ نکلنے کے باوجود انھوں نے اپنی کوشش جاری رکھی۔
چارلس ڈار ون (وفات1882) کا عضویاتی ارتقا (organic evolution)کا نظریہ سامنے آیا تو اس کے وسیع تر انطباق کے تحت یہ یقین کرلیا گیا کہ انسان کی تمدنی تاریخ مسلسل بہتر سے زیادہ بہتر کی طرف بڑھ رہی ہے۔ صنعتی سائنس کے ظہور کے بعد اِس نظریے کو مزید تقویت ملی اور یہ یقین کرلیاگیا کہ موجودہ دنیا کو جنّتی دنیا میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
اَلوِن ٹافلر کی کتاب فیوچر شاک(Future Shock) پہلی بار 1970 میں چھپی ۔ اِس کتاب میں یہ تاثر دیا گیا تھا کہ دنیا ترقی کرکے انڈسٹریل ایج (industrial age) میں پہنچی تھی۔ وہ مزید ترقی کرکے سپرانڈسٹریل ایج (super industrial age) کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ امریکا کو اسپیس ٹکنالوجی میں کچھ ترقی ہوئی تو اُس نے اعلان کردیا کہ اب ہم زمینی تہذیب سے آگے بڑھ کرخلائی تہذیب (space civilization) کے دور تک پہنچ رہے ہیں۔ اب ہم زمین سے چاند تک سفر کریں اور وہاں سے مرّیخ (Mars) تک پہنچ جائیں گے:
We want to build a space civilization for tomorrow from where humans can travel to the Moon and from there to Mars (The Times of India, September 26, 2007, p. 21).
یہ باتیں ہورہی تھیں کہ ہماری زمین پر وہ اختتامی دور شروع ہوگیا، جس کو گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ (UNO) موجودہ دنیا کا سب سے بڑا عالمی ادارہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کے تحت، ایک انٹرنیشنل پینل بنایا گیا ۔ اِس پینل میں ڈھائی ہزار سائنس داں شامل کیے گئے۔ اِن سائنس دانوں کا تعلق دنیا کے ایک سو تیس (130)ملکوں سے تھا۔ یہ پینل موسمیاتی تبدیلی پررسرچ کے لیے تھا۔ اِس پینل نے اپنی رسرچ مکمل کرکے اس کی تفصیلی رپورٹ اقوامِ متحدہ کے حوالے کردی ہے۔
یہ کسی ایک کانفرنس کی بات نہیں۔ آج کل تقریباً ہر روز میڈیا میں اِس قسم کی خبریں آرہی ہیں۔ تمام دنیا کے سائنس داں مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ زمین پر زندگی کے اسباب کا مسلسل خاتمہ ہورہا ہے۔ کئی انواعِ حیات (species)اب تک ناموافق موسم کی وجہ سے ختم ہوچکی ہیں۔ اِس سلسلے کی ایک رپورٹ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (3 جنوری 2007) میں شائع ہوئی۔ اُس کا عنوان یہ تھا— انتباہی نشانیاں (Warning Signs) ۔
اِس سلسلے کا ایک اور حوالہ یہ ہے۔ مشہور سائنس داں جیمس لولاک (James Lovelock) نے جدید سائنسی معلومات کی روشنی میں کہا ہے کہ 2050 ء تک سطحِ ارض کا بڑا حصہ خشک ہوچکا ہوگا۔ بیش تر زندگیاں ختم ہوجائیں گی۔ ہم ایک ایسے انجام کے کنارے پہنچ چکے ہیں، جب کہ ایک ایک کرکے لوگ مرنے لگیں گے، یہاں تک کہ سارے لوگ ختم ہوجائیں گے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہوگا جس کو اِس سے پہلے انسان نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ جو کچھ ہونے والا ہے، اُس میں اگر بیس فی صد آدمی بھی زندہ بچ جائیں تو وہ بہت خوش قسمت انسان ہوں گے:
We are on the edge of the greatest die-off humanity has ever seen. We will be lucky if 20% of us survive what is coming. (The Times of India, May 18, 2007, p. 22)
گلوبل وارمنگ (global warming)کا موضوع موجودہ زمانے میں سب سے زیادہ برننگ ٹاپک (burning topic)بن چکاہے۔ اِس موضوع پر کثرت سے رپورٹیں اور مضامین اور کتابیں شائع ہو رہی ہیں۔ کسی کو مزید تفصیل جاننا ہو تو وہ انٹرنیٹ کے ذریعے بہ آسانی یہ تفصیلات جان سکتا ہے۔