دور جدید

دور جدید کے مسلمانوںکا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ بہت بڑے پیمانے پر اس ذہنیت کا شکار ہیں ، جس کو اناکرونزم(anachronism) کہا جاتا ہے، یعنی خلاف زمانہ حرکت۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان کو ماضی سے کام کا جو ماڈل وراثتی طور پر ملا ہے ، وہ ابھی تک اس سے باہر نہیں آئے۔ وہ زمانے سے بے خبری کی بنا پر قدیم ماڈل کو جدید دور میں  دہرارہے ہیں۔ مگر یہ طریقہ کوئی مثبت نتیجہ پیدا کرنے والا نہیں۔

مثلاً قدیم زمانے میں  اصلاح کے لیے فتویٰ کی زبان رائج تھی۔ آج کے علماء بدستور اسی ماڈل کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اسی بنا پر وہ تکفیر کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ جس کو غلط سمجھتے ہیں ، اس کے خلاف کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں، اور اس کے قابل گردن زدنی ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔ حالاں کہ اب کسی بھی درجے میں  ان طریقوں سے کوئی اصلاح ہونے والی نہیں۔ یہ زمانہ عقلی استدلال (rational argument) کا زمانہ ہے۔ اب آج کے لوگوں کے لیے صرف عقلی استدلال مؤثر ہوسکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں  فتویٰ کی زبان ورک (work) کرنے والی نہیں۔

 اسی طرح موجودہ زمانے کے مسلمان بڑے پیمانے پر اسلامی مقصد حاصل کرنے لیےجہاد کے نام پر تشدد کی تحریکیں چلارہے ہیں۔ حالاں کہ اب وہ زمانہ ختم ہوچکا ہے جب کہ تشدد کا طریقہ مؤثر ہوا کرتا تھا۔ موجودہ زمانے میں  کسی بھی مقصد کو حاصل کرنے کے لیےامن کا طریقہ پوری طرح کافی ہے۔اسی طرح مسلمانوں کا ایک طبقہ اسلام کی اشاعت کے نام پر مناظرہ (debate) کا طریقہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ حالاں کہ موجودہ زمانے میں  مناظرہ کا طریقہ ایک متروک طریقہ بن چکا ہے۔ موجودہ زمانے میں  اس کام کے لیے ڈسکشن اور ڈائلاگ کی اہمیت ہے، نہ کہ ڈیبیٹ کی۔

اسی طرح بہت سےمسلم رہنما امت کی ترقی کے لیے احتجاجی صحافت اور احتجاجی قیادت کے ماڈل پر کام کررہے ہیں، مگران کو معلوم نہیں کہ صحافت اور قیادت کے لیے یہ ماڈل اب آخری حد تک بے اثر ہوچکا ہے۔ موجودہ زمانے میں  احتجاجی صحافت اور احتجاجی قیادت صرف وقت ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے وہ کوئی کام ہی نہیں، وغیرہ۔

  موجودہ زمانے میں  جو مسلم رہنما امت کے کاز (cause)کے لیے کام کرنے اٹھے، وہ صرف اپنے داخلی جذبہ کے تحت اٹھ کھڑے ہوئے۔ انھوں نے باقاعدہ مطالعے کے ذریعہ یہ جاننے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی کہ موجودہ زمانہ کیا ہے، اور موجودہ زمانے میں  کوئی کام موثر طور پر کیسے کیا جاسکتا ہے۔ ایسے لوگوں کو صرف ایک کتاب کے مطالعے کا مشورہ دوں گا۔اس کتاب کا ٹائٹل یہ ہے:

The Great Intellectual Revolution, by John Frederick West (1965, pp 132)

 مسلم رہنماؤں کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ دورِ جدید کو دشمن اسلام دور سمجھتے ہیں۔ یہ سرتاسر بے بنیاد بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دور جدید پورے معنوں میں  ایک موافق اسلام دور ہے۔ وہ اس حدیث کی پیشین گوئی کے مطابق ہے جس میں  بتایا گیا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا، جب کہ غیر مسلم قومیں  اسلام کی مؤید (supporter) بن جائیں گی (مسند احمد، حدیث نمبر 20454)۔

یہ خود اللہ رب العالمین کے منصوبے کا معاملہ ہے۔ پیغمبر اسلام کے ظہور سے تقریبا ًڈھائی ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم کےذریعہ ایک منصوبہ جاری کیا گیا تھا۔ جس کو مبنی بر صحرا منصوبہ (desert-based planning) کہا جاسکتا ہے۔ اس منصوبے کے ذریعہ عرب میں  ایک ٹیم تیار ہوئی۔ یہ ٹیم موافق اسلام ٹیم تھی۔ اس ٹیم پر عمل کرکے پیغمبر اسلام نے اصحاب رسول کو تیار کیا، جن کو قرآن میں  خیر امت (آل عمران،3:110) کہا گیا ہے۔ اسی طرح ساتویں صدی عیسوی میں  رسول اور اصحاب رسول کی جدو جہد کے ذریعہ ایک نیا تاریخی عمل (historical process) جاری ہوا۔ اس عمل کے سیکولر نتیجے کے طور پر جدید تہذیب (modern civilization) وجود میں  آئی۔ یہ تہذیب اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک موافق اسلام تہذیب تھی۔ مگر مسلم رہنما اس راز کو نہ سمجھ سکے، اور غیر ضروری طور پر انھوں نےاس کے خلاف لڑائی چھیڑ دی۔ حالاں کہ ضرورت تھی کہ اس تہذیب کی بنیاد پر اسلامی مشن کی نئی پلاننگ کی جائے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom