عہد شباب

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ البخاری کے مطابق، اس کا ابتدائی جزء یہ ہے:يأتي في آخر الزمان قوم، حدثاء الأسنان، سفهاء الأحلام، يقولون من خير قول البرية، يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية(صحیح البخاری، حدیث نمبر3611)۔یعنی بعد کے زمانے میں ایک قوم آئے گی، یہ لوگ کم عمر اور کم عقل ہوں گے، بات بہت عمدہ کریں گے، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیرکمان سے نکل جاتاہے۔

اس حدیث میں ایک ظاہرے کی طرف اشارہ ہے، جس کی ایک انتہائی صورت کو اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ مگراس سے قطع نظر اس حدیث سے فطرت کا ایک اصول معلوم ہوتا ہے۔وہ یہ کہ کوئی آدمی جب اپنے عہد شباب (youth age) میں ہوتا ہے تو اس وقت وہ اپنی عقل و فہم کے اعتبار سے غیر پختہ (immature) ہوتا ہے۔ اس لیے کسی آدمی کی اس رائے کو زیادہ قابلِ اعتبار سمجھنا چاہیے جس کو اس نے پختگی کی عمر کو پہنچنے کے بعد ظاہر کی ہو۔

قرآن سے بھی فطرت کا یہ اصول معلوم ہوتا ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ جب جوانی کی عمر میں تھے۔ اس وقت انھوں نے مصر کے ایک قبطی کو گھونسا ماردیا، جس سے مرگیا (28:15)۔ لیکن حضرت موسیٰ کو عہد شباب میں نبوت نہیں دی گئی۔ بلکہ اس وقت دی گئی جب کہ وہ پختگی کی عمر (age of maturity) تک پہنچ چکے تھے۔ کیوں کہ بحیثیت پیغمبر ان کو قولِ لیِّن کی زبان میں کلام کرنا تھا (20:44)۔

مذکورہ حدیث میں مسلم تاریخ کے ایک اہم پہلو کی توجیہہ ملتی ہے۔ مسلم تاریخ اپنے بعد کے زمانے میں نظریاتی انتہاپسندی (ideological extremism) کی طرف چلنے لگی۔ اس کو حدیث میں انتباہ کی زبان میں غلو کہا گیا ہے (ابن ماجہ، حدیث نمبر3029)۔ حدیث کے مطالعے سے مذکورہ تاریخی ظاہرے کی نفسیاتی توجیہ معلوم ہوتی ہے۔وہ یہ کہ بعد کے زمانے میں جن حضرات کو مسلمانوں کے اندر مفکر (thinker)کا درجہ ملا، ان کا فکر ان کے عہدِ شباب میں بنا تھا، جب کہ وہ ابھی پختگی کی عمر کو نہیں پہنچے تھے۔ مثلاً ابن تیمیہ، عبدالوہاب نجدی، ابوالاعلیٰ مودودی، وغیرہ۔

عہد شباب میں انسان کے اندر جوش کا جذبہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس بنا پر اس کے افکار میں اکثر انتہاپسندی کا انداز پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ اعتدال کی زبان بولنے کے بجائے، انتہاپسندی کی زبان بولنے لگتا ہے۔ بعد کو اس کا یہ فکر مقدس بن کر لوگوں میں اتنا پھیل جاتا ہے کہ لوگ اس کو نظرِثانی کے بغیردرست فکر سمجھ لیتے ہیں۔ یہی واقعہ بعد کے زمانے کے مسلم مفکرین کے ساتھ پیش آیا۔

مثلاً ابن تیمیہ کے زمانے میں ایک عیسائی نے پیغمبر اسلام کے بارے کوئی بات کہی۔ اس کو اس وقت کے مسلمانوں نے شتم رسول کا کیس قرار دیا۔ یہ واقعہ ملک شام میں اس وقت پیش آیا جب کہ ابن تیمیہ اپنی جوانی کے عمر میں تھے۔اس وقت انھوں نے عربی میںایک ضخیم کتاب لکھی جس کا ٹائٹل تھا :الصارم المسلول علی شاتم الرسول۔ (البدایۃ والنہایۃ، جلد 13، صفحہ335-36)اس کتاب میں انھوں نے یہ مسئلہ بیان کیا کہ جو آدمی شتم رسول کا مرتکب ہو، اس کی سزا قتل ہے۔

 ابن تیمیہ اس وقت اگر پختگی کے عمر میں ہوتے تو یقیناً ان کا ردعمل مختلف ہوتا۔ وہ مذکورہ عیسائی سے مل کر اس کو ہمدردانہ انداز میں سمجھاتے۔ وہ ایک ایسی کتاب لکھتے جس میں وہ بتاتے کہ شتم رسول جیسا غیر فطری معاملہ ہمیشہ غلط فہمی کی بنا پر ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے آدمی کے اوپر تبلیغ کرنا چاہیے، اور پر امن دعوتی عمل کے ذریعے اس کی اصلاح کی کوشش کرنا چاہیے۔

  سید ابوالاعلی مودودی کے زمانے میں ایک واقعہ پیش آیا، اس کے بعد انھوں نے اپنی اردو کتاب الجہاد فی الاسلام لکھی۔ اس وقت وہ اپنی جوانی کی عمر میں تھے۔ چنانچہ انھوں نے جوش و خروش کے انداز میں ایک ایسی کتاب لکھی جس میں جہاد بمعنی قتال کی زبردست وکالت کی گئی تھی۔ حالاں کہ اگر وہ اس وقت پختگی کی عمر میں ہوتے تو شاید وہ ایک اور کتاب لکھتے جس کا عنوان یہ ہوتاالدعوۃ الی اللہ۔ اس کتاب میں وہ پر امن دعوت کی اہمیت بتاتے اور مسلمانوں کو راغب کرتے کہ وہ پرامن دعوت کے اصول پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں۔ یہی معاملہ دوسرے مسلم مفکرین کے ساتھ پیش آیا۔ اب اس کا حل یہ ہے کہ اسلام کو سمجھنے کے لیے براہ راست طور پر قرآن و سنت کا مطالعہ کیا جائے ،نہ کہ بعد کے زمانے میں لکھی ہوئی کتابوں کا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom