سائنس اور عقيدهٔ خدا

1927 ميں بلجيم كے ايك سائنس داں جارجز ليمٹري (Georges Lemaitre) نے بگ بينگ (Big Bang) كا نظريه پيش كيا۔اِس نظريے پر مزيد تحقيق هوتي رهي، يهاں تك كه اِس كي حيثيت ايك مسلّمه واقعه كي هوگئي۔ آخر كار 1965 ميں بيگ گراؤنڈ ريڈي ايشن (background radiation) كي دريافت هوئي۔ اِس سے معلوم هوا كه كائنات كے بالائي خلا ميں لهر دار سطح (ripples) پائي جاتي هيں۔ يه بگ بينگ كي شكل ميں هونے والے انفجار كي باقيات هيں۔ اِن لهروں كو ديكھ كر ايك امريكي سائنس داں جويل پرائميك (Joel Primack) نے كها تھا  — يه لهريں خدا كے هاتھ كي تحرير هيں:

The ripples are no less than the handwriting of God.

جارج اسموٹ 1945 ميں پيداهوا۔ وه ايك امريكي سائنس داں هے۔ اس نے 2006 ميں فزكس كا نوبل پرائز حاصل كيا۔ يه انعام اُن كو ’كاسمك بيك گراؤنڈ ايكسپلورر، كے ليے كام كرنے پر دياگيا۔  1992 ميں جارج اسموٹ نے يه اعلان كيا كه بالائي خلا ميں لهردار سطحيںپائي جاتي هيں۔ يه بگ بينگ كي باقيات هيں۔ اُس وقت جارج اسموٹ نے اپنا تاثر اِن الفاظ ميں بيان كيا تھا  — يه خدا كے چهرے كو ديكھنے كے مانند هے:

George Fitzgerald Smoot III   (born February 20, 1945)   is an American astrophysicist and cosmologist. He won the Nobel Prize in Physics in 2006  for his work on the Cosmic Background Explorer. In 1992 when George Smoot announced the discovery of ripples in the heat radiation still arriving from the Big Bang, he said it was  “like seeing the face of God.”  (God For The 21st Century, Templeton Press, May 2000)

جب یہ بات ثابت ہوجائے کہ کائنات کی تخلیق کے پیچھے ایک عظیم ذہن (mind) کی کارفرمائی ہے۔ کائنات کے اندر جو معنویت ہے، جو منصوبہ بندی ہے، جو بے نقص ڈزائن ہے، وہ حیرت انگیز طور پر ایک اعلیٰ ذہن کے وجود کو بتاتا ہے۔ کائنات میں  ان گنت چیزیں ہیں۔ لیکن ہر چیز اپنے فائنل ماڈل پر ہے۔ کائنات میں  حسابی درستگی اتنے زیادہ اعلیٰ معیار پر پائی جاتی ہے کہ ایک سائنس داں نے کہا کہ کائنات ایک ریاضیاتی ذہن (mathematical mind)کی موجودگی کا اشارہ کرتی ہے۔اس موضوع پر اب بہت زیادہ لٹریچر تیار ہوچکا ہے، جس کو انٹرنیٹ پر یا لائبریری میں  دیکھا جاسکتا ہے۔ کائنات میں  انٹلیجنٹ ڈیزائن ہونے کی ایک مثال یہ ہے کہ ہمارا سولر سسٹم جس میں  ہماری زمین واقع ہے، وہ ایک بڑی کہکشاں (galaxy)کا ایک حصہ ہے۔ لیکن ہمارا شمسی نظام کہکشاں کے بیچ میں  نہیں ہے، بلکہ اس کے کنارے واقع ہے۔ اس بنا پر ہمارے لیے ممکن ہے کہ ہم محفوظ طور پر زمین پر زندگی گزاریں، اور یہاں تہذیب (culture) کی تعمیر کریں:

The centre of the galaxy is a very dangerous place. Being in the outskirts of the galaxy, we can live safely from the hectic activities at the centre.

اس حکیمانہ واقعہ کا اشارہ قرآن میں  موجود تھا۔ مگر موجودہ زمانے میں  سائنسی مطالعے کے ذریعہ اس کی تفصیلات معلوم ہوئیں، جو گویا قرآن کے اجمالی بیان کی تفسیر ہے۔جب علم کا دریا یہاں تک پہنچ جائے تو اس کے بعد صرف یہ کام باقی رہ جاتا ہے کہ اس دریافت کردہ شعور یا اس ذہن کو مذہبی اصطلاح کے مطابق، خدا (God) کا نام دے دیا جائے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom