ايك واقعه

اصل یہ ہے کہ سائنسی علوم کو ایکزيکٹ سائنسز (exact sciences ) کہا جاتا ہے۔اس لیے کہ سائنسی علوم تمام تر ریاضیات (mathematics) پر مبنی ہوتے ہیں۔ یورپ میں  جب سائنسی علوم پھیلے تو اس کے نتیجے میں  اہل یورپ کے درمیان مبنی بر واقعیت سوچ (exact thinking) پیدا ہوئی۔ یہ طرز فکر اسلام اور قرآن کے عین موافق تھا۔ اس طرز فکر کی بنا پر اہل یورپ اسلام اور قرآن کی دعوت کے لیے بہترین مدعو بن گئے۔ اس وقت اگر اہل یورپ کو اسلام اور قرآن کی دعوت پہنچائی جاتی تو یقینی طور پر وہ اسلام اور قرآن کے لیے نہایت مثبت جواب (positive response) دیتے۔ مثالیں بتاتی ہیں کہ یورپ کے بہت سے افراد نے اس قسم کا رسپانس دیا۔ مگر عین اسی زمانے میں  ساری دنیا کے مسلمان نفرت مغرب کی نفسیات میں  مبتلا ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں  وہ اس دعوتی امکان کو اَویل (avail)کرنے کےلیے ناکام ثابت ہوگئے۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو مغربی سائنس بلاشبہ اسلام کے لیے ایک تائیدی سائنس (supporting science) بن جاتا۔

اسی قسم کا ایک اور واقعہ یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ یہ واقعہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر رشید احمد صدیقی نے بیا ن کیا ہے۔ انھوں نے یہ واقعہ مضامین رشید میں  نقل کیا ہے:

18ءیا 19ء کا واقعہ ہے۔ یونین میں  ام الالسنہ عربی پر خواجہ کمال الدین (1870-1932) کی اردو میں تقریر تھی۔ انھوں نے بڑی قابلیت اور اعتماد کے ساتھ تقریر شروع کی۔ مولانا سہیل کی آنکھوں میں  تکلیف تھی۔ سردیوں کا زمانہ تھا، مولانا کو احباب اسپتال لائے تھے۔ یونین میں  مجمع دیکھا تو کہا مولانا تکلیف نہ ہو تو ذرا تقریرسنتے چلیں۔ مولانا نے کہا اچھی بات ہے، لیکن آنکھوں میں  تکلیف زیادہ ہے، جلد اٹھ آئیں گے۔ سب لوگ یونین میں  آئے۔ مولانا سر سے پاؤں تک بڑے وزنی لبادے میں  ملفوف تھے، سر پر اونی کنٹوپ تھا۔ آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی، اور اس پر ہرے رنگ کا چھجا (شیڈ) لگا ہوا تھا۔ خواجہ صاحب نے کم و بیش دو گھنٹے تک تقریر کی۔ حاضرین محو حیرت تھے۔ تقریر ختم ہوئی تو وائس پریسیڈنٹ نے اعلان کیا کہ مولانا سہیل، فاضل مقرر کا طلبائے کالج کی طرف سے شکریہ ادا کریں گے۔ مولانا کے خلاف سازش کامیاب ہوئی۔ دوستوں اور ساتھیوں نے مولانا کو ہاتھوں ہاتھ ڈائس پر پہنچادیا۔ مولانا کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی، میز کے پاس کھڑے کیے گئے۔ تھوڑی سی ناک، اس سے ذرا بڑی اور ہاتھ کی صرف انگلیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ مولانا نے بےتکلف تقریر شروع کردی، اس اعتماد سے گویا تمام عمر اسی مبحث پر تیاری کی تھی۔ جو لوگ یونین کے مجمع سے واقف ہیں، وہ جانتے ہوں گے کہ اچھے مقرر کے بعد کسی اور کی تقریر سننے کے لیے کوئی نہیں ٹھهرتا، اور صدر کا شکریہ بھی اسی بدنظمی کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ مولانا نے بھی ام الالسنہ عربی پر تقریر شروع کی۔ پون گھنٹہ تک تقریر کی، نئے نئے پہلوؤں سے موضوع پر روشنی ڈالی، نئی نئی مثالیں پیش کیں۔ تقریر اس درجہ دلنشیں اور کہیں کہیں اتنا شگفتہ بنادیا کہ خواجہ صاحب نے بے اختیار ہو کر مولانا کو گلے لگا لیا، اور فرمایا تمھارے ایسا جامع کمالات ساتھ کام کرنے والا مل جائے تو اسلام کا جھنڈا یورپ کی سب سے بلند چوٹی پر نصب کردوں۔ (مضامین رشید،علی گڑھ،1964 صفحہ 42-43)

 مولانا اقبال احمد سہیل (1884-1955) اعظم گڑھ میں  پیدا ہوئے۔ انھوں نے علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم اے، ایل ایل بی تک تعلیم حاصل کی۔ وہ نہایت ذہین آدمی تھے۔ لیکن اس زمانے کے دوسرے مسلمانوں کی طرح وہ بھی انگریز سے اور یورپ سے نفرت کرتے تھے۔ ان کو اسلام دشمن سمجھتے تھے۔ اس بنا پر وہ خواجہ کمال الدین کی پیش کش کی اہمیت کو سمجھ نہ سکے۔ تعلیم کے بعد وہ علی گڑھ سے اعظم گڑھ چلے گئے، اور وہاں ضلع کی عدالت میں  پریکٹس کرنے لگے۔ اسی حالت میں  ان کا انتقال ہوگیا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom