انبیاء کا نمونہ
قرآن میں انبیاء کا ذکر کرتے ہوئے یہ آیت آئی ہے:إِنَّا أَخْلَصْنَاهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ (38:46)۔ یعنی ہم نے ان پیغمبروں کو ایک خاص مشن، آخرت کی یاد دہانی کے لیے چن لیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبروں کے لیے اللہ کی طرف سے مقرر کردہ مشن کیا ہے۔ پیغمبر کی امت کو بھی ہر زمانے میں اسی مشن کی پیروی کرنا چاہیے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبروں کا مشن آخرت کا مشن تھا۔ مگر یہ مشن اتفاقاً نہیں بنتا۔ اس کے لیے پیغمبروں کو تیار کیا جاتا ہے۔ وہ اپنا مشن شروع کرنے سے پہلے غور و فکر کی زندگی گزارتے ہیں۔ وہ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ انسان کے خالق نے ان کو کس منصوبہ کے تحت پیدا کیا ہے۔ غور و فکرکی اس زندگی کے بعد انھیں اللہ کی طرف سے ہدایت ملتی ہے، اور پھر وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اصل یہ ہے کہ انسان کی زندگی آخرت رخی (akhirat-oriented life)ہو، انسان کی سوچ کا مرکز و محور آخرت ہو، وہ اپنی زندگی اس سوچ کے تحت گزارے کہ دنیا میں اس کی جو شخصیت بنے ،وہ آخرت کے اعتبار سے ایک کامیاب شخصیت ہو۔
پیغمبر اس لیے نہیں آتا کہ وہ ملی ورک یا سوشل ورک جیسے کام کرےیا کوئی سیاسی پروگرام چلائے۔ پیغمبر کا مشن یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو زندگی کے اصل مقصد سے آگاہ کرے، وہ لوگوں کو بتائے کہ خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق ، ان کے لیے کامیابی کیا ہے، اور ناکامی کیا ۔ وہ دنیا میں کس طرح زندگی گزاریں کہ موت کے بعد جب وہ آخرت کی دنیا میں پہنچیں تو وہ اللہ کے انعام کے مستحق قرار پائیں۔ اللہ کی طرف سے پیغمبروں کو یہ حکم ہوتا ہے کہ وہ اس معاملے میں کسی جھکاؤ (tilt)کا ثبوت نہ دیں۔ وہ کسی سمجھوتے کے بغیر خدا کا اصل پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہیں۔ اس معاملے میں وہ کسی بھی عذر کو استعمال نہ کریں۔