خود کش حملہ
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندران کی زوال یافتہ قومی نفسیات کے تحت ایک ایسا ظاہرہ پیدا ہوا ہے جو غالباً تحلیلِ حرام (حرام كو حلال كرلينے )کی سنگین ترین صورت ہے، اور يه ظاهره خودکش بمباری (suicide bombing)كا ظاهره هے، یعنی مفروضہ دشمن کو ہلاک کرنے کے لیے اپنے آپ کو بم سے اڑا دینا۔ايك حديث ميں اس قسم كے ظاهرے كي طرف ان الفاظ ميں پيشين گوئي كي گئي هے:يسمّونها بغير اسمها فيستحلونها(سنن الدارمی،حدیث نمبر2145)۔ يعني اس كو دوسرا نام دے كر اس كو حلال كرليں گے۔
یہ طریقہ بلاشبہ نص شرعی کے مطابق ایک حرام فعل ہے۔ کچھ علماء نےبطورِ خود، خود کش بمباری کے اس فعل کو استشہاد (طلبِ شہادت) کہہ کر جائز قرار دیا ہے۔ مگر اس قسم کا استدلال گناہ پر سرکشی کا اضافہ ہے۔ اس قسم کا کوئی بھی خود ساختہ فتویٰ خودکش بمباری جیسے صراحتاً ناجائز فعل کو جائز قرار نہیں دے سکتا۔
ایک حدیث اس معاملے میں قطعی حکم کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ حدیث مختلف کتابوں میں آئی ہے، مثلاً صحیح البخاری (حدیث نمبر3062)، صحیح مسلم (حدیث نمبر 112)، مسندامام احمد (حدیث نمبر8090) ، وغیرہ۔ ان مختلف روایتوں کے الفاظ تقریباً یکساں ہیں۔روایت کے مطابق، صحابی بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ میں رسول اللہ صلي الله عليه وسلم کے ساتھ شریک تھے۔ ہمارے ساتھ ایک شخص تھا جو ایمان لاچکا تھا۔ اس کا نام قزمان تھا۔ جنگ ہوئی تو یہ شخص شدید طور پر لڑا۔ لوگ اس کی بہادری کی تعریف کرنے لگے۔ مگر رسول اللہ صلي الله عليه وسلم نے اس کے بارے میں کہا کہ وہ اہل جہنم میں سے ہے(إنّه من أهل النّارِ)۔ لوگوں کو آپ کے اس قول پر يقين نهيں ہوا۔ آپ نے کہا کہ جاکر اس کی تحقیق کرو۔ جب لوگوں نے اس کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ جنگ میں وہ شدید طور پر زخمی ہوگیا تھا۔پھر زخموں کی تاب نہ لاکر اس نے اپنے آپ کو خود اپنے ہتھیار سے ہلاک کرلیا( فقَتل نفْسه)۔ جب آپ كو اس كي خبر دي گئي تو آپ نے اللہ اکبر کہا اور فرمایاکہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بنده اور اس كا رسول هوں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام میں خودکشی مطلق حرام کی حیثیت رکھتی ہے۔حتیٰ \کہ کوئی شخص بظاہر پیغمبر کا ساتھی ہو، اور وہ غزوہ میں لڑ کر بہادری دکھائے، لیکن آخر میں وہ اپنے آپ کو خود اپنے ہتھیار سے مارکر اپنا خاتمہ کرلے تب بھی اس خودکشی کی بنا پر اس کی موت، حرام موت قرار پائے گی۔ کسی بھی عذرکی بنا پر اس کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اگر مسلمانوں پر حملہ کیا جائے، اور وہ لڑتے ہوئے مارے جائیں تو یہ جائز ہے۔ لیکن قصداً اپنے جسم کے ساتھ بم باندھنا، اور مفروضہ دشمنوں کے درمیان جاکر بم كا دھماكا كر دینا، جس میں وہ آدمی خود بھی مرے، اور دوسرے بھی مارے جائیں۔ یہ طریقہ صراحتاً خود کشی کا طریقہ ہے، اور وہ یقینی طور پراسلام میں ناجائز ہے۔ اہل ایمان کے لیے حملے کے خلاف جنگ کرنا جائز ہے، اور اگر وہ مقابله کرنے کی حیثیت میں نہ ہوں، تو اس کے بعد ان کے لیے کرنے کا جو کام ہے، وہ صبر ہے، نہ کہ خود کش حملہ۔ مگراس معاملے میں موجودہ مسلمانوں کا آبسیشن (obsession) اتنا بڑھا ہوا ہے کہ کوئی اس پر سوچنے کے لیے تیار نہیں۔