فقہی ماڈل کا نقصان

فقہ کا شعبہ ایک مستقل شعبہ (independent discipline) کے طور پر صحابہ اور تابعین کے دور میں  موجود نہ تھا۔ فقہ کی تشکیل بعد کو عباسی دور750-1258) (میں  ہوئی۔ فطری طورپر فقہ کے بہت سے مسائل وقتی حالات کے تقاضے کے تحت بنائے گئے، مگر بعد کو وہ مقدس ہو کراسلام کا ابدی حصہ سمجھے جانے لگے۔ اِس حدکو پہنچ کر فقہ کا شعبہ اُسي طرح ایک فرسودہ ڈھانچہ بن گیا، جس طرح مسلم خلافت کے ادارے نے بعد کے زمانے میں  ایک فرسودہ ڈھانچے کی حیثیت اختیار کرلی تھی۔

اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ فقہ کی تشکیل کے زمانے میں  پرنٹنگ پریس کا طریقہ دریافت نہیں ہوا تھا۔کتابیں یا تو حافظے میں  ہوتی تھیں یا ہاتھ سے اُن کو قدیم طرز کے معمولی کاغذ (parchment) پر لکھا جاتا تھا۔ اُس دور کے مسلم علماء قرآن کی حفاظت کے معاملے میں  بہت زياده حساس بن گئے۔ اُس زمانے میں  بعض لوگوں نے قرآن کا فارسی ترجمہ کیا۔ اِس سے ایک مسئلہ پیدا ہوا۔ علما نے یہ فتویٰ دے دیا کہ ترجمہ جب لکھا جائے تو اُس کے ساتھ قرآن کا عربی متن (Arabic Text) بھی ضرور شامل کیا جائے۔ قبل از طباعت دور کا یہ مسئلہ بعد از طباعت دور میں  بھی مقدس بن کر باقی رہا۔ اس معاملے کی ایک مثال حسب ذیل استفتا اور فتوے سے معلوم ہوتی ہے:

استفتا: کیا قرآن کا ترجمہ بغیر متن کے چھاپنا اور اس کی اشاعت کرنا جائز ہے۔

فتوي: قرآن کریم کا ترجمہ بغیر متن کے شائع کرنا جائز نہیں ہے۔ علماءِ کرام نے اس سے منع کیا ہے، اور اس کے ممنوع ہونے پر علما کا اجماع نقل کیا ہے۔ مفتی محمد شفیع عثمانی نے اس پر ایک مستقل رسالہ تحریر کیا ہے، اور اس میں  علامہ شرنبلالی کے اِس موضوع پر ایک مستقل رسالہ (النفحۃ القدسیۃ في أحکام قراء ۃ القرآن وکتابتہ بالفارسیۃ) کا ذکر کیا ہے، اور لکھا ہے کہ اس میں  ائمہ اربعہ سے بغیر متن، قرآن کے لکھنے کو سختی کے ساتھ حرام کیاگیا ہے۔ مفتی محمد شفیع عثمانی نے لکھا ہے کہ قرآن مجید کا صرف ترجمہ بغیر عربی الفاظ کے لکھنا اور لکھوانا اور شائع کرنا، باجماعِ امت حرام اور باتفاق ائمہ اربعہ ممنوع ہے‘‘۔ (جواہر الفقہ، جلد 1، صفحہ 97 )

مذکورہ فتوے کی بنیاد یقینی طور پر کسی نص پر مبنی نہیں ہے۔ اگر اُس کو درست قرار دیا جاسکتاہے تو صرف ایک بنیاد پر اس کو درست قرار دیا جاسکتاہے، اور وہ دورِ طباعت سے پہلے کے حالات کی نسبت سے ایک وقتی احتیاط ہے۔ اب دور طباعت میں  اِس وقتی احتیاط کو برقرار رکھنا صرف ذہنی جمود کا ايك معاملہ ہوگا، نہ کہ حقیقۃً احتیاط کا معاملہ۔ دورِ طباعت میں  قرآن کی حفاظت اتنے مستحکم انداز میں  ہوچکی ہے کہ اب قدیم انداز کی کوئی احتیاط سرتاسر بے معنی ہے۔

مزید یہ کہ اِس قسم کے مفتی صاحبان نے اپنے جامد ذہن کی بنا پر ایک اور فتویٰ دے رکھا ہے۔ یہ فتویٰ ’’بے حرمتی‘‘ کے خود ساختہ تصور پر مبنی ہے۔اِس دوسرے فتوے کے مطابق، قرآن کے ترجمے کو اگر متن کے ساتھ شائع کیا جائے تو غیر مسلموں کے ہاتھ میں  اس کو دینا جائز نہ ہوگا، کیوں کہ وہ قرآن کی بے حرمتی کریں گے۔ گویا کہ قرآن کے ترجمے کو اگر متن (text)  کے بغیر شائع کیا جائے تو اس کا شائع کرناناجائز ہے۔ اوراگر قرآن کے ترجمے کو متن کے ساتھ شائع کیا جائے تو اس کو غیر مسلموں کے ہاتھ میں  دینا ناجائز ہے، یعنی پہلی صورت میں  طباعت ناجائز اور دوسری صورت میں  استعمال ناجائز۔

یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ ذہنی جمود اپنے نتیجے کے اعتبار سے کتنا زیادہ ہلاکت خیز ہے۔ اِس قسم کے جامد فتووں کا یہ ہلاکت خیز نتیجہ ہوا ہے کہ دعوت الی اللہ کا کام عملاً معطل ہو کر رہ گیا۔ دعوت الی اللہ کے کام کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ قرآن کا ترجمہ مختلف زبانوں میں  چھاپا جائے، اور اس کو منظم طورپر لوگوں تک پہنچایا جائے۔ لیکن مذکورہ قسم کے بے اصل فتوؤں کی بنا پر ایسا ہوا کہ مسلمانوں کے اندر دعوت الی اللہ کا ذہن ہی نہیں بنا۔ موجوده زمانےمیں  پرنٹنگ پريس کا دور اِس لیے آیا تھا کہ خدا کی کتاب کا ترجمہ ہر زبان میں  چھاپ کر اس کو تمام انسانوں تک پہنچایا جائے، مگردورِپریس پر تين سو سال سے زیادہ کی مدت گزر گئی اور ذهني جمود كي بنا پراب تک یہ کام انجام نہ پاسکا۔

اِس مثال کے برعکس، ترکی میں  ایک دوسری مثال سامنے آئی۔ یہاں ترکی کے شہر استانبول میں  ایک تاریخی مسجد (رستم پاشا مسجد) ہے۔ یہ بڑی مسجد ہے اور یہاں کثرت سے سیاح آتے ہیں۔ یہاں کے ترکی امام کو ہمارے ساتھیوں نے قرآن کے انگریزی ترجمہ (بغیر متن) کی کاپیاں دیں۔ امام صاحب نے اس کو خوشی کے ساتھ لیا۔ اس کے بعد انھوں نے بڑی تعداد میں  قرآن کا یہ انگریزی ترجمہ ترکی سے چھپوایا، اور اس کو مزید پرکشش بنانے کے لیے قرآن کے سائز کا ایک خوب صورت بیگ تیار کیا۔ اب وہ اس کو باقاعدہ نظم کے تحت مسجد ميں آنے والے سیاحوں کو دے رہے ہیں۔

اس کا طریقہ یہ ہے کہ انھوں نے  مسجد کے صحن میں  ایک میز پر قرآن کے ترجمے رکھ دئے ہیں۔ یہاں انھوں نے لکھ دیاہے — یہ آپ کے لیے مسجد کی طرف سے فری اسپریچول گفٹ (free spiritual gift) ہے۔ چنانچہ مسجد میں  آنے والے غير مسلم سیاح یہاں سے بڑی تعداد میں  قرآن کا انگریزی ترجمہ بخوشی حاصل کررہے ہیں۔

اِس فرق سے جدید ترکی کے مثبت پہلو کا اندازہ ہوتاہے۔ اتاترک آپریشن کے بعد ترکی میں  یہ ہوا کہ جمود ٹوٹ گیا، اور لوگوں کے اندر کھلا پن (openness) آیا۔ اِس کے مختلف مظاہر میں  سے ایک مظہر یہ تھا کہ لوگوں کے اندر مذہبی جمود کا مزاج ختم ہوگیا۔ وہ چیزوں کو اُس کی حقيقت کے اعتبار سے دیکھنے لگے، نہ کہ قدامت پسندی اور کٹر پن کے اعتبار سے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom