سنتِ یہود کی پیروی
حدیث میں بتایا گیا ہے کہ امتِ محمدی بعد کے زمانے میں ضرور یہود کي کامل اتباع کرے گی: لتتبعُنَّ سَنَنَ من كان قبلَكم ، شبرًا بشبرٍ وذراعًا بذراعٍ ، حتى لو دخلوا جُحْرَ ضبٍّ تبعتُمُوهم. قلنا : يا رسولَ اللهِ ، اليهودُ والنصارى ؟ قال :فمَنْ (صحیح البخاری، حدیث نمبر7320)۔ یہ سادہ طورپر یہودکي اتباع کا مسئلہ نہیں ہے۔
یہ دراصل ایک قانونِ فطرت کا معاملہ ہے، جس کو قرآن میں طولِ امدکے نتیجے میں قساوت کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَلَا يَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ۭ وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ (57:16) یعنی لمبی مدت گزرنے کی بنا پر بعد کی نسلوں میں زوال آنا، اور زوال کی بنا پر ان کے اندر مختلف قسم کے بگاڑ کا پیدا ہوجانا۔
سنتِ یہود کی پیروی کی سب سے زیادہ سنگین صورت وہ ہے، جو شہادت (witness) کے معاملے میں واقع ہوئی۔ یہود کو اللہ نے اپنے دین کا گواہ (witness) بنایا تھا۔ اس کا ذکر بائبل میں ان الفاظ میں آیا ہے: خداوند فرماتا ہے تم میرے گواہ ہو، اور میرے خادم بھی جسے میں نے منتخب کیا تاکہ تم جانو اور مجھ پر ایمان لاؤ، اور سمجھو کہ میں وہی ہوں۔ مجھ سے پہلے کوئی خدا نہ ہوا، اور میرے بعد بھی کوئی نہ ہوگا (یسعیاہ، 43:10)
You are My witnesses, declares the Lord, and My servant whom I have chosen, so that you may know and believe Me and understand that I am He. Before Me no god was formed, nor will there be one after Me. (Isaiah 43:10)
یہود پربعد کے زمانے میں جب زوال آیا، تو انھوں نے خدا کے دین کی گواہی کی اس ذمے داری کو عملاً چھوڑدیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ زوال یافتہ نفسیات کی بنا پر ان کے اندر قومی ذہن پیدا ہوگیا۔ ان کے اندر وہ نفسیات پیدا ہوگئی جس کو یہود کی تاریخ میں یہودی احساسِ برتری (Jewish supremacism)کہا جاتا ہے۔
چنانچہ ان کی دلچسپی تمام تر اپنی قوم تک محدود ہوگئی ، وہ دوسرے انسانوں کے خیرخواہ نہ رہے۔ بلکہ دوسروں کو عمومی طور پر انھوں نے اپنا دشمن سمجھ لیا۔کیوں کہ وہ قوم یہود كي خود ساختہ برتری کے نظریہ کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اس بنا پر انھوں نے دینِ خداوندی کی گواہی کے کام کو چھوڑدیا، اور اس کے بجائے دوسرے قومی کاموں میں مشغول ہوگئے۔ مگر اسی کے ساتھ خود پسندی (self-righteousness)کے جذبہ کی بنا پر یہ ظاہر کرتے رہے کہ وہ اب بھی اپنے پیغمبر موسیٰ کے بتائے ہوئے دین پر قائم ہیں۔
یہود کے اس معاملے کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ. لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ(3:187-188)۔يعني جب اللہ نے اہل کتاب سے عہد لیا کہ تم خدا کی کتاب کو پوری طرح لوگوں کے لیے ظاہر کرو گے اور اس کو نہیں چھپاؤ گے۔ مگر انھوں نے اس کو پس پشت ڈال دیا، اور اس کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالا۔ کیسی بری چیز ہے، جس کو وہ خرید رہے ہیں ۔ جو لوگ اپنے اس عمل پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو کام انھوں نے نہیں كيے اس پر ان کی تعریف ہو، ان کو عذاب سے بَری نہ سمجھو۔ ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔
دورِ جدید کے مسلمانوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ اس معاملے میں کامل طور پر یہود کے متبع بن چکے ہیں۔ انھوں نے دعوت الی اللہ کے کام کو عملاً چھوڑ دیا ہے۔ اس کے بجائے وہ دوسرے قومی کام انجام دے رہے ہیں، لیکن ان کاموں کو وہ غلط طور پر دعوت کا کام بتاتے ہیں۔ انھوں نے شہادت کے تصور کو بدل کر جانی قربانی (martyrdom) کے معنی میں لے لیا۔ وہ قومی سیاست (communal politics) میں مشغول ہیں۔ اس خودساختہ عمل میں جب ان کے کچھ لوگ مارے جاتے ہیں تو وہ ان کو بطور خود شہید اور شہداء کا ٹائٹل دے کر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ دعوت اور شہادت کا مطلوب کام انجام دے رہے ہیں۔
انسان کوئی کام نفسیاتی محرک کے تحت کرتا ہے۔ دعوت الی اللہ کا کام کرنے کے لیےدوسروں کے ساتھ خیرخواہی کی اسپرٹ ضروری ہے۔ مگر دورِ زوال میں مسلم برتری (Muslim supremacism) کا ذہن جو مسلمانوں میں آیا، اس کے نتیجے میں وہ دوسری قوموں کو کم تر اور اپنا حریف سمجھنے لگے۔ اس نفسیات کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسری قوموں کے لیے خیرخواہی کا جذبہ ان کے اندر باقی نہ رہا۔ موجودہ زمانے کے مسلمان عام طور پر اسی قومی نفسیات کے شکار ہیں۔
یہی سب سے بڑی وجہ ہے، جس نے ان سے دعوت الی اللہ کا جذبہ چھین لیا ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان بظاہراپنی سرگرمیوں كو’’نظامِ مصطفیٰ‘‘ کا نام دیتے ہیں۔لیکن وہ جوکچھ کررہے ہیں، اس کا نظامِ مصطفیٰ سے کوئی تعلق نہیں۔
یہ طریقہ عین اسی طریقے کی اتباع ہے جس کو قرآن میں زوال یافتہ یہود کی طرف منسوب کیا گیا ہے: يُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا(3:188)۔ يعني وه چاہتے ہیں کہ جو کام انھوں نے نہیں کئے اس پر ان کی تعریف ہو۔قرآن کے یہ الفاظ موجودہ زمانے کے مسلمانوں پر پوری طرح صادق آرہے ہیں۔ وہ اپني قومی سرگرمیوں پر دعوت اور شہادت کا ٹائٹل لینا چاہتے ہیں۔ مگر اللہ کے قانون کے مطابق ایسا کبھی ہونے والانہیں۔ اس قسم کی روش بلاشبہ قابلِ مواخذہ ہے نہ کہ قابلِ انعام۔