علم قلیل
قرآن کی سورة الاسراء(17:85) میں اعلان کیاگیا تھا کہ انسان کو صرف علم قلیل حاصل ہے۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ انسان تخلیقی طورپر محدودیت (limitations) کا حامل ہے۔ اپنی اِس فطری محدودیت کی وجہ سے وہ صرف علم قلیل تک پہنچ سکتا ہے، علم کثیر کا حصول اس کے لیے ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں انسان کو خدا کے پیغمبر کے اوپر ایمان لانا چاہیے۔ پیغمبر وحیِ الٰہی کے ذریعے اُس بات کو جان لیتا ہے جس کو انسان اپنی محدودیت کی بناپر نہیں جان سکتا۔ اِس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کی ہدایت پیغمبر کے ذریعے حاصل کرے۔ اِس معاملے میں انسان کے لیے اِس کے سواکوئی اور انتخاب (option) موجود نہیں۔
قرآن میں یہ بات ساتویں صدی عیسوی کے رُبعِ اوّل میں کہی گئی تھی۔ اُس وقت انسان اِس کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوا۔ قرآن کی اِس تنبیہ کے باوجود بڑے بڑے فلسفیانہ دماغ علم کُلّی کی تلاش میں سرگرداں رہے۔ آخر کار کئی ہزار سال کی ناکام کوشش کے بعد جدید سائنس ظہور میں آئی۔ جدید سائنس نے دور بین اورخورد بین جیسے بہت سے طریقے دریافت کیے۔ اب یہ یقین کیا جانے لگاکہ سائنسی مطالعے کے ذریعے انسان اُس مطلوب علم تک پہنچ جائے گا، جہاں تک پچھلے زمانے کا انسان نہیں پہنچ سکا تھا۔
یہ تلاش نیوٹن کے بعد سے عالم کبیر (macro world) کی سطح پر چلتی رہی۔ آخر کار البرٹ آئن اسٹائن (وفات1955) کا زمانہ آیا، جب کہ انسانی علم عالم صغیر(micro world) تک پہنچ گیا۔ اب یہ معلوم ہوا کہ جس مادّے کو پہلے قابلِ مشاہدہ (visible)سمجھا جاتا تھا، وہ بھی اپنے آخری تجزیے میں قابلِ مشاہدہ نہیں۔ یہاں پہنچ کر یہ مان لیا گیا کہ سائنسی طریقہ انسان کو علم کُلی تک پہنچانے میں حتمی طورپر ناکام ہے۔
سائنس کی یہ علمی ناکامی پہلے صرف عالم صغیر کی حد تک دریافت ہوئی تھی، مگر بعد کی تحقیقات نے بتایا کہ خود عالم کبیر بھی انسان کے لیے حتمی طورپر ناقابلِ مشاہدہ ہے۔ سائنس کے آلات مادی دنیا کے بارے میں انسان کو کلی علم تک پہنچانے سے عاجز ہیں۔ انسان جس طرح عالم صغیر کے بارے میں علم قلیل رکھتاہے، اُسی طرح وہ عالم کبیر کے بارے میں بھی صرف علم قلیل کا حامل ہے، اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ یہ نظریہ بلیک ہول (Black Hole) کی دریافت کے بعد سامنے آیا۔
ایمسٹرڈم (ہالینڈ) میں ماہرینِ طبیعیات(physicists)کی ایک انٹرنیشنل کانفرنس 2007 میں ہوئی۔ اِس موقع پر فزکس کا نوبل پرائز پانے والے ایک امریکی سائنس داں جیمس واٹسن (James Watson Cronin) نے اپنے مقالے میں بتایا— ہماری کائنات کا 96 فی صد حصہ ڈارک میٹر (dark matter) پر مشتمل ہے۔ اُس کی روشنی یا ریڈی ایشن ہم تک نہیں پہنچتی، اِس لیے ہم اُس کو ڈائرکٹ طورپر نہیں دیکھ سکتے۔ موجودہ آلات کے ذریعے ہم اُن کا احاطہ نہیں کرسکتے:
Dark matter cannot be detected directly, because it does not emit or reflect light or radiation — or not enough to be picked up by available tools. (The Times of India, New Delhi, September 23, 2007, p. 20)
جیمس واٹسن نے اپنے مذکورہ بیان میں مزید کہا — ہم سمجھتے تھے کہ ہم کائنات کو جانتے ہیں، مگر معلوم ہواکہ ہم کائنات کے صرف چار فی صد حصے ہی کو براہِ راست طورپر جان سکتے ہیں:
We think we understand the universe, but we only understand four percent of everything.
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ علم کے بارے میں مستقبل نے اُسی بات کی تصدیق کی جو بہت پہلے اُس کتاب میں کہہ دی گئی تھی جو پیغمبر اسلام، خدا کی طرف سے لائے تھے۔ دنیا کے بڑے بڑے دماغ اِس یقین کے ساتھ اپنی تلاش میں لگے ہوئے تھے کہ وہ علم کُلی تک پہنچ سکتے ہیں، مگر قرآن میں پیشگی طورپر یہ اعلان کیاگیا کہ اپنی محدودیت کی بنا پر انسان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ خود اپنی کوشش سے علم کلی تک پہنچ سکے۔ آخر کار خود انسانی علم نے قرآن کے بیان کی تصدیق کردی۔ مستقبل نے انسانی مفروضے کو رد کردیا اور قرآن کے بیان کی کامل تصدیق کردی۔