مسئله کا حل
امت مسلمہ کے اندر یہ جو سخت نامحمود صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے، اس کا حل صرف یہ ہے کہ ان کو صحیح آئڈیالوجی دی جائے۔ یہ لوگ اسلام کے بارے میں غلط آئڈیالوجی کے شکار ہیں۔ اس کی اصلاح صرف اس طرح ہوسکتی ہے کہ ان کو قرآن و حدیث کی بنیاد پر درست آئڈیالوجی سے واقف کرایا جائے۔اس سے کم درجے کی کوئی چیز اس صورتِ حال کی اصلاح کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔
مثلاً ان لوگوں کو اس فطری حقیقت سے باخبر کرنا جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ۔ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ۔ وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (41:34-36)۔اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں ، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہو گیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔ اور یہ بات اسی کو ملتی ہے جو صبر کرنے والے ہیں ، اور یہ بات اسی کو ملتی ہے جو بڑا نصیب والا ہے۔ اور اگر شیطان تمھارے دل میں کچھ وسوسہ ڈالے تو اللہ کی پناہ مانگو۔ بےشک وہ سننے والا، جاننے والا ہے۔
قرآن کی اس آیت کے مطابق، انسانوں کے درمیان جو تفریق ہے، وہ یہ نہیں ہے کہ کچھ لوگ ہمارے دوست ہیں، اور کچھ لوگ ہمارے دشمن ۔ بلکہ صحیح تفریق یہ ہے کہ کچھ لوگ ہمارے واقعی دوست (actual friends) ہیں، اور کچھ لوگ ہمارے امکانی دوست (potential friends)۔ یہ فطرت کا قانون ہے۔
اس کے مطابق اہل ایمان کو یہ کرنا ہے کہ وہ کسی کو بھی اپنا دشمن نہ سمجھيں، بلکہ بلاتفریق ہر ایک کو اپنا دوست بنانے کی کوشش کريں— یہی دعوہ اسپرٹ ہے، اور اسی کا نام دعوت الی اللہ ہے۔
اسی طرح ان لوگوں کو قرآن کی وہ آیت یاددلاناہے، جس میں قتل کی برائی کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا (5:32)۔جو شخص کسی کو قتل کرے، بغیر اس کے کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد برپا کیا ہو تو گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے ایک شخص کو بچایا تو گویا اس نے سارے انسانوں کو بچا لیا۔
اسی طرح ان لوگوں کو یہ بتانا کہ مسلمان کا مسلمان کو مارنا قرآن کے مطابق ایک جہنمی فعل ہے۔ اس سلسلے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيماً (4:93)۔ اور جو شخص کسی مومن کو جان کر قتل کرے تو اس کی سزاجہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔