اجتهادي رول
جدیدترکی کے لیے جو عالمی دعوتی رول مقدر ہے، اس کے لیے آسمان سے کوئی آواز نہیں آئے گی۔ اِس قسم کا رول اجتہادی ہوتاہے۔ اِس لیے وہ ہمیشہ دریافت کے ذریعے معلوم ہوتا ہے۔ دورِ اول میں یثرب (مدینہ) کے لیے ایک عظیم دعوتی رول مقدر تھا، مگر اہلِ مدینہ کو اِس کی خبر نہ تھی۔ پیغمبر اسلام کو بذریعہ وحی اس کی خبر دی گئی۔ چنانچہ آپ نے فرمایا: أمرتُ بقریۃ تأکل القری، یقولون یثرب، وهي المدینۃ (صحیح البخاری، حديث نمبر 1748)۔ يعني مجھے ايك بستي (ميں جانے) كا حكم ديا گيا هے جو بستيوں كو كھا جائے گي، لوگ اس كو يثرب كهتے هيں ، اور وه مدينه هے۔ اِس طرح ترکی کا عالمی دعوتی رول گہرے غور وفکر کے ذریعے دریافت کرنا ہوگا۔ جیساکہ عرض کیاگیا، قرائن (circumstances) واضح طورپر اس کا اشارہ کررہے ہیں۔
یہ قیاس ترکی کی چند متعین خصوصیات کی بنا پر قائم ہوتاہے۔ یہ خصوصیات بظاهرکسی دوسرے مسلم ملک میں موجود نہیں۔ اِن خصوصیات میں سے چند یہ ہیں:
1۔ ترکی کا جغرافیہ ایک انوکھا جغرافیہ ہے۔ ترکی مسلم دنیا میں وہ واحد ملک ہے، جس کو اپنے جائے وقوع کے اعتبار سے مشرق اور مغرب کے درمیان سنگم (junction) کی حیثیت حاصل ہے۔
2۔ ترکی مسلم دنیا کا واحد ملک ہے، جو مختلف اسباب کی بنا پر سیاحت کے نقشہ (tourist map) میں ٹاپ کا درجہ رکھتاہے۔ اِس طرح ترکی وہ واحد مسلم ملک بن گیا ہے، جہاں ساری دنیا کے مدعو خود سفر کرکے داعی کے پاس پہنچ رہے ہیں۔
3۔ قدیم زمانے میں دعوت کا کام سیاسی انفراسٹرکچر(political infrastructure) کی بنیاد پر ہوا تھا موجوده زمانے میں نئی تبدیلیوں کی بناپر دعوتی کام کے لیے سوشل انفراسٹرکچر (social infrastructure) درکار ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم دنیا میں اِس وقت صرف ترکی وہ ملک ہے، جہاں یہ مطلوب سوشل انفراسٹرکچر پایا جاتاہے۔ ميں نے اپنے سفر كے دوران اِس كو سوشيو ايجوكيشنل انفراسٹركچر (socio-educational infrastructure) كا نام ديا تھا۔
4۔ ترکی کے اِس جديد ڈیولپمنٹ میں مصطفی کمال اتاترک کا تائيدي رول ہے۔ کمال اتاترک فطری طورپر ایک جرأت مند اور باعزم آدمی تھے۔ یہ کمال اتاترک ہی تھے، جو ترکی میں ریڈیکل ریفارم (radical reform)لے آئے۔ مثلا رومن رسم الخط کو ترکی زبان کا رسم الخط بنانا، مغربی طرزِ تعلیم کو ترکی میں رائج کرنا، وغیرہ۔
کمال اتاترک جو تبدیلیاں لائے، اُن کو مخالفِ مذهب(anti-religion)کہنا درست نہ ہوگا۔ زیادہ صحیح طورپر اتاترک کا مشن مخالفِ جمود (anti-stagnation)مشن تھا۔ ترکی کے سفر میں وہاں کي مشہور نيوز ايجنسي (Anadolia Ajansi)کے نمائندہ کو انٹرویو دیتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ جدید ترکی کا کیس اسلام کو سیکولر بنانا نہیں تھا، بلکہ اپنے نتيجے كے اعتبار سے، وه سیکولرزم کو اسلامی بنانا تھا:
The case of modern Turkey was not one of secularization of Islam, but in terms of result, it was Islamization of secularism.
ترکي میں کمال اتاترک کی ریڈیکل کارروائیوں کے نتیجے میں بہت سی مثبت چیزیں پیدا ہوئیں۔ مثلاً طویل جمود کا ٹوٹنا، لوگوں میں اوپن نیس (openness)کا آنا، جدید تعلیم کا فروغ، مغربی کلچر سے ڈائنا مزم (dynamism) كا آنا،مثبت سیکولر قدروں (positive secular values) کو فروغ، جدید وسائل کو کسی تحفظ کے بغیر رواج دینا، ترکی زبان کے لیے رومن رسم الخط اختیار کرنے کی بنا پر کمپیوٹر کی تیز رفتار ترقی کا ممکن ہوجانا، عالمی انٹریکشن (global interaction) کا عمومی پھیلاؤ، حقیقت پسندانہ طرزِ فکر (realistic thinking) کا رواج، علیحدگی پسندی (separatism) کا خاتمہ، ہر شعبے میں جدید کاری (modernization)، وغیرہ۔
مصطفیٰ کمال اتاترک بظاهر کوئی مذہبی انسان نہیں تھے، وہ صرف ایک سیکولر انسان تھے۔ مگر ترکی میں جو انقلابی تبدیلیاں ان کے ذریعے وجود میں آئیں، وہ باعتبار نتیجہ ایسی تھیں جن سے اسلامی دعوت کے نئے مواقع کھل گئے۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کا انکار کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔