اسلام کی تاریخ
پیغمبرِ اسلام صلى الله عليه وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنا مشن شروع کیا۔آپ کا مشن دعوتِ توحید کا مشن تھا۔ لوگوں کے لیے اِس پیغمبرانہ مشن کے مآخذ ابتدائی دور میں صرف دو تھے، قرآن اور حدیث۔ قدیم زمانے میں پرنٹنگ پریس موجود نہ تھا،اس لیے لوگ حافظہ اور مخطوطات کے ذریعےاسلام کو سمجھتے رہے۔ ابتدائی دور میںاسلام کو سمجھنے کے لیے قرآن و حدیث کوواحد ماخذ (source)کی حیثیت حاصل تھی۔لوگ قرآن اور حدیث کو پڑھتے اور اس سے اسلام کی تعلیمات اخذ کرتے۔بعد کے زمانہ میں جو تبدیلی پیدا ہوئی،اس نےاس معاملےمیںامتِ مسلمہ کے لیےاسلام کا ماخذ بدل دیا۔ اب قرآن و حدیث کے بجائے عملاًتاریخ ان کی ذہن سازی کا ذریعہ بن گئی۔
اس عمل کا آغاز دوسری صدی ہجری میں سیرت نگاری سے ہوا۔اِس ابتدائی دور میں سیرت پر جو کتابیں لکھی گئیں، وہ سب غزواتی پیٹرن (pattern) پر لکھی گئیں۔ مثلاً مغازی الواقدی، مغازی موسیٰ بن عقبہ، مغازی ابن اسحاق، وغیرہ۔ پیغمبرِ اسلام صلى الله عليه وسلم کا مشن اصلاً پرامن دعوت کا مشن تھا۔ لیکن ابتدائی دور کی ان کتابوں نے قارئین کو یہ تاثر دیا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا مشن، ایک ایسا مشن تھا جو جنگ وقتال پر مبنی تھا، نہ کہ اللہ کی طرف پُرامن دعوت پر۔
عباسی خلافت 123ھ میں قائم ہوئی۔ اس کے بعد اسلامی موضوعات پر تحریری کام بڑے پیمانے پر شروع ہوا۔ اب وسیع تر معنوں میں اسلام کی تاریخ لکھی جانے لگی۔ لیکن اب بھی بنیادی پیٹرن وہی باقی رہا۔ چنانچہ اس دور میںبھی اسلامی تاریخ کے موضوع پرجوکتابیں لکھی گئیں، وہ عملاً فتوحاتی پیٹرن پر لکھی گئیں۔ مثلا فتوح الشام للواقدی، فتوح البلدان للبلاذری، وغیرہ۔
ایساکیوں ہوا کہ پیغمبر ِ اسلام کی سیرت لکھنے کے لیے غزواتی پیٹرن اختیار کیا گیا۔ اسی طرح اسلام کی تاریخ لکھنے کے لیے کیوںفتوحاتی پیٹرن ایک مقبول پیٹرن بن گیا۔جواب یہ ہے کہ ایسا زمانی عنصر (age factor) کی بنا پر ہوا۔ پہلے زمانے میں تاریخ نگاری کا یہی پیٹرن تمام دنیا میں رائج تھا۔بادشاہوں کے قصے، سلطنت کے واقعات، اور حکمرانوں کی لڑائیاں، قدیم زمانے میںاسی قسم کی چیزیں تاریخ کا موضوع بنی ہوئی تھیں۔ اس لیے جب مسلمانوںمیں تاریخ نگاری کا کام شروع ہوا تو انھوں نے زمانی تاثر کے تحت اسلام میں بھی تاریخ نگاری کے اسی رواجی پیٹرن کو اختیار کر لیا۔ یہی وہ چیز ہے جس کو قرآن میں مضاہات کہا گیا ہے (9:30)۔
عبد الرحمٰن ابن خلدون (وفات808 ھ) پہلا شخص ہے، جس نے تاریخ نگاری کے اس پیٹرن پر تنقید کی۔ اس نے کہا کہ تاریخ کو پوری انسانی سرگرمی کا بیان ہونا چاہئے، نہ کہ صرف بادشاہت اور سلطنت کا بیان۔ابن خلدون نے اپنے اِس نقطۂ نظر کو اپنی اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ پیش کیا ، جو مقدمہ ابن خلدون کے نام سے مشہور ہے۔ابن خلدون نےخودبھی تاریخ پر ایک کتاب لکھی، جس کاٹائٹل یہ تھا: ديوان المبتدا والخبر في تاريخ العرب والبربر ومن عاصرهم من ذوي الشأن الأكبر۔ مگر ابن خلدون کی اپنی لکھی کتاب بھی تاریخ نویسی کے بارے میںاس کے بتائے ہوئے معیار پر پوری نہیں اترتی۔ابن خلدون کی تاریخ کی یہ کتاب بھی عملاً اس دورکی دوسری تاریخ کی کتابوں جیسی ایک کتاب بن گئی۔
ظہورِ اسلام کے بعد ہزار سال تک اسلام کی تاریخ پر جو کتابیں لکھی گئیں، وہ تقریباً سب کی سب اسی پیٹرن پر لکھی گئیں، جس کو سیاسی پیٹرن کہنا صحیح ہوگا۔تاریخ کی یہ کتابیں اسلام کو ایک ایسے دین کے طور پر پیش کرتی رہیں، جو عملاً سیاسی نوعیت کے واقعات کا ایک مجموعہ تھا۔
تاریخ نگاری کے اس سیاسی پیٹرن کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اسلام کی تاریخ سے وہی چیز حذف ہوگئی، جو اس کا اہم ترین جز تھی، اور وہ دعوت الی اللہ ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ بعد کے دور میں اسلام کی تاریخ کے نام سے جو کتابیں لکھی گئیں، ان میں دعوت کا پہلو سرے سے موجود ہی نہیں۔ مثلاً مورخ ابن اثیر کی کتاب کا نام الکامل فی التاریخ ہے۔لیکن وہ اسلامی تاریخ کا کامل بیان نہیں۔ کیوں کہ اس کتاب میں سیاسی نوعیت کے واقعات کا ذکر تو کیا گیا ہے، لیکن اس میں اسلام کے دعوتی پہلو کی تاریخ موجود نہیں۔ اسی طرح ابن کثیرنے تاریخ کے موضوع پر ایک ضخیم کتاب لکھی ، جس کا نام البدایۃ والنهایۃ ہے، یعنی از اول تا آخر۔ مگر اس کتاب کا حا ل بھی یہ ہے کہ اس میں اسلامی تاریخ کے دوسرے واقعات تفصیل کے ساتھ موجود ہیں، لیکن اسلام کی دعوتی تاریخ اس کے اندر موجود نہیں۔
سیاسی پیٹرن کا تعلق صرف تاریخ کی کتابوں تک محدود نہ رہا۔ یہ پیٹرن ہر شعبۂ علم میں چھاگیا۔ مثلا جب حدیث کی تدوین ہوئی تو حدیث کی کتابوں میں کتاب المغازی اور کتاب الجہاد کے ابواب تفصیل کے ساتھ موجود ہیں، لیکن کتاب الدعوۃ والتبلیغ ان میںموجود نہیں۔ اسی طرح عباسی دور میں فقہ پر جو کتابیں لکھی گئیں، ان میں بھی کتاب المغازی اور کتاب الجہاد کے تفصیلی ابواب موجود ہیں، لیکن فقہ کی کسی کتاب میں کتاب الدعوۃ والتبلیغ موجود نہیں، وغیرہ۔ یہی وہ کتابیں تھیں جن کو پڑھ کر بعد کی مسلم نسلوں کا ذہن بنایا۔ اس کے نتیجے میں بعد کے مسلمانوں میں سوچنے کا دعوتی پیٹرن رائج نہ ہوسکا، بلکہ سوچنے کا سیاسی پیٹرن رائج ہوگیا۔ مثلاًشاہ ولی اللہ دہلوی کی ایک کتاب حجۃ اللہ البالغہ ہے،جس کا موضوع اپنے نام کے لحاظ سے الله كي حجت ہے، لیکن اس میں دعوت کا باب سرے سے موجود نہیں۔ حالاں کہ قرآن کے مطابق اللہ کی حجت لوگوں کے اوپر دعوت کے ذریعے قائم ہوتی ہے(4:165)۔عجیب بات ہے کہ اسلامی تاریخ کے دعوتی پہلو پر باقاعدہ کتاب لکھنے کا کام سب سے پہلے ایک مسیحی مستشرق نے کیا۔اس كتاب كا ٹائٹل ہے:
T. W. Arnold, The Preaching of Islam, first published in 1896
سیاسی پیٹرن پر لکھی ہوئی تاریخ کی کتابوں کے پڑھنے سے جو ذہن بنا، وہ وہی تھا جس کو سیاسی اور قومی ذہن کہا جاسکتا ہے۔تاریخ نگاری کا یہ پیٹرن جاری تھا۔ یہاں تک کہ بیسویں صدی عیسوی کا زمانہ آیا۔بیسویں صدی میں مسلمان نئے حالات سے دو چار ہوئے۔ان کا ایمپائر ،مثلا ًمغل ایمپائر اور عثمانی ایمپائر ٹوٹ گیا۔مسلمانوں کے اوپر ہر اعتبار سے مغربی قوموں کا غلبہ قائم ہوگیا۔ مغربی قومیں نئی طاقت کے ساتھ ابھریں، اور عملاً سارے عالم پر چھاگئیں، جن میں مسلم قومیں بھی شامل تھیں۔
یہ صورتِ حال مسلمانوں کے لیےایک سیاسی چیلنج بنی ہوئی تھی۔اس کے نتیجے میںمسلمانوں کے اندر سیاسی ردّ عمل کا ذہن پیدا ہوا۔ اسی زمانے میں کارل مارکس کا نظریۂ تاریخ بڑے پیمانے پر پھیلا۔ کارل مارکس نے جو نظریۂ تاریخ پیش کیا، اس کا خاص پہلو یہ تھا کہ اس نے تاریخ کی ایک مادی تعبیر پیش کی، جس کو مادی تعبیرِ تاریخ (material interpretation of history) کہا جا تا ہے۔ 1917 میں جب کارل مارکس کے پیروؤں (کمیونسٹ پارٹی)کو روس میںحکومت قائم کرنے کا موقع ملا تو اس کے بعد مارکسی فلسفہ ساری دنیا میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔
ان حالات کے زیرِ اثر مسلم دنیا میںایک ظاہرہ پیدا ہوا۔ یہ ظاہرہ زیادہ تر زمانی حالات سے تاثر پذیری کا نتیجہ تھا۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ کچھ مسلم مفکرین نے اسلام کو وقت کے معیار کے مطابق ثابت کرنے کے لیے، اسلام کی سیاسی تعبیر (political interpretation of Islam) پیش کرنا شروع کیا۔ ان مسلم مفکرین میں دونام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں،عرب دنیا میں سید قطب مصری (وفات1966)، اور برصغیر ہند میں سید ابولاعلی مودودی (وفات1979)۔
اسلام کی یہ سیاسی تعبیروقت کی مسلم نسلوں کے مزاج کے مطابق تھی۔ چنانچہ وہ عرب اور غیرعرب دنیا میں تیزی سے پھیل گئی۔ اس سیاسی نظریے کے تحت ہر زبان میں لٹریچر تیارکیا گیا۔ جماعتیں اور ادارے بنائے گئے۔ اس سیاسی نظریے کے تحت مسلمانوں میں سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔
اسلام کی سیاسی تعبیر کے اس نظریے کے تحت مسلمانوں کے درمیان جو سرگرمیاں شروع ہوئیں، ان کا نشانہ حکومت پر قبضہ کرنا تھا۔ تاکہ ان کے مفروضہ ذہن کے تحت ہر جگہ اسلام کا نظام قائم کیا جاسکے۔مگر ہر قسم کی قربانیوں کے باوجود ان عناصر کو اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ جو ہوا، وہ صرف یہ تھا کہ مسلمان ہر جگہ عملاً دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک اقتدار پر قابض گروہ اوردوسرا اقتدار سے محروم گروہ۔ ان دونوں طبقوں کے درمیان لامتناہی طور پر حریفانہ تعلق قائم ہوگیا۔
یہ طبقہ جو اپنے آپ کو اسلام پسند (Islamist) کہتا ہے، اس نے جب دیکھا کہ ان کو مسلم ملکوں میں کامیابی حاصل نہیں ہورہی ہے تو انھوں نے خود اپنے آپ پر نظر ثانی نہیں کی بلکہ انھوں نے اس کا الزام مغربی قوموں پر ڈال دیا۔ انھوں نے کہا کہ مغربی قوموں نے سازش کر کے مسلم حکمرانوں کو اپنے موافق بنا لیا ہے۔اب ان کی سیاسی مہم کا نشانہ بیک وقت دو ہوگیا۔ ایک طرف مسلم حکمراں، اور دوسری طرف مغرب کی قومیں۔انھوں نے دونوں کے خلاف نفرت اور تشدد کی سرگرمیاں جاری کردیں۔
مگرآخرکار ان اسلام پسندوں کو نظر آٰیا کہ ساری کوششوں کے باوجود وہ اپنے سیاسی مقصد میں کامیاب نہیں ہورہے ہیں۔ اب ان کے اندر ایک خطرناک رجحان ابھرا، اور وہ خودکش بمباری (suicide bombing)کا رجحان تھا۔ انھوں نے غلط پروپیگنڈے کے ذریعےوقت کے مسلمانوں کو آخری حد تک انتہاپسندی میں مبتلا کردیا۔چنانچہ ان کو مسلمانوں میں ایسے افراد کثرت سے ملنے لگے، جو اپنے مفروضہ دشمن کے خلاف خود کش بمباری کے لیے تیار تھے۔اکیسویں صدی میںیہ رجحان پوری شدت کے ساتھ کام کررہا ہے۔یہ رجحان یقینی طور پر کوئی صحت مند رجحان نہیں۔ اس کا مطلب عملاً یہ ہے— اگر تم دشمن کو ہلاک نہیں کرسکتے تو ایساکرو کہ خوداپنے آپ کو ہلاک کرکے کم ازکم دشمن کو غیر مستحکم (destabilize)کرو۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں کوئی نیا آغاز لانا صرف اس طرح ممکن ہے کہ ان کے کیس کو گہرائی کے ساتھ سمجھا جائے، اور اجتہادی انداز میں اس معاملے کی نئی منصوبہ بندی کی جائے۔ کسی جذباتی اقدام یا ردعمل کے تحت کوئی کارروائی اس معاملے کا حل نہیں بن سکتی۔ یہ احیائے امت کا معاملہ ہے، اور احیائے امت کا معاملہ ہمیشہ اجتہاد پر مبنی ہوتا ہے۔
راقم الحروف کے نزدیک اس معاملےکا آغاز یہ ہے کہ وہ تمام کتابیں جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر سیاسی پیٹرن پر لکھی گئیں، ان سب کو کلاسیکل لٹریچر (classical literature) کا درجہ دے دیا جائے۔ یعنی ان کی اہمیت صرف اس اعتبار سے ہو کہ وہ امتِ مسلمہ کی ماضی کی تاریخ کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہیں، لیکن جہاں تک موجودہ زمانے میں ملت کے احیاء اور اس کے مستقبل کی تعمیر کا سوال ہے، اب بلاشبہ ہم کو نئے لٹریچر کی ضرورت ہے۔ایسا لٹریچر جس میں قرآن و سنت کی روشنی میں نئے حالات کو سمجھا جائے، اور اجتہادی انداز میں عمل کا نقشہ بنایا جائے۔
بعد کے زمانے میں جو ڈیولپمنٹ (development)ہوا، اس کے نتیجے میں امت کے اندر انسان رخي ذهن كے بجائے مسلم رخی ذہن (Muslim-oriented mind)بن گیا۔ مسلمان عام طور پر ہم اور وہ (we and they) کے انداز میں سوچنے لگے۔ مگر یہ ذہن مکمل طور پرایک غیر دعوتی ذہن ہے۔ صحیح ذہن وہ ہے جو ہم اور ہم (we and we) کے تصور پر مبنی ہو۔ اس لحاظ سے موجودہ زمانے میںجو اسلامی لٹریچر تیار كيا جائے، اس کو تمام تر انسان رخی سوچ (man-oriented thinking) پر مبنی ہونا چاہئے۔ دعوت الی اللہ کے لیےضروری ہے کہ مسلمانوں کے اندر دوسرے انسانوں کے لیے نصح (خیرخواہی) کا ذہن موجود ہو۔ مسلمانوں کا موجودہ لٹریچر اس اسپرٹ سے خالی ہے۔ آج جس نئے لٹریچر کی ضرورت ہے، اس کو اس کمی سے مکمل طور پرپاک ہونا چاہئے، ورنہ وہ عملاً مطلوب مقصد کے لیے مؤثر نہ ہوگا۔