اسلام کا تاریخی رول

انسان کو اللہ نے آزاد مخلوق کی حیثیت سے بنایا ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنی عقل کو استعمال کرکے خالق کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کو دریافت کرے،اور آزادانہ ارادے کے تحت اپنی زندگی کو اس کے مطابق بنائے۔ اس حقیقت کو بتانے کے لیے اللہ نے بار بار اپنے پیغمبر بھیجے۔ ہزاروں سال کے دوران بڑی تعداد میں ہر علاقے میں پیغمبر آئے۔ لیکن انسان پیغمبروں کے ساتھ استہزاء (یٰس،36:30)کا معاملہ کرتا رہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دینِ خداوندی کی کوئی تاریخ نہیں بنی۔

آخر میں اللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ انسانی تاریخ میں مداخلت كرے،اور پیغمبروں کا مشن جو دعوت کے مرحلے پر ختم ہوتا رہا، اس کو خصوصی تائید کے ذریعے انقلاب (revolution) کے مرحلے تک پہنچائے۔ چنانچه پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کی بعثت اسی مقصد کے ساتھ ہوئی۔ آپ کے ذریعے دینِ خداوندی کودعوت سے شروع کیا گیا ، اور پھراس کو انقلاب کے مرحلے تک پہنچادیا گیا۔ اس کے بعد کسی نئے نبی کی ضرورت نہ تھی، اس لیے اعلان کردیا گیا کہ پیغمبر اسلام سلسلۂ نبوت کے آخری شخص (الاحزاب، 33:40) ہیں۔

پیغمبراسلام کے حوالے سے قرآن میں تین بار، لِیُظْهِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ (9:33؛  48:28؛ 61:9) کے الفاظ آئے ہیں۔ ان آیتوں میں اظہارِ دین کا لفظ سیاسی حکومت کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ نظریاتی انقلاب کے معنی میں ہے۔ اظهار الدين إنما هو بالحجج الواضحة (زاد المسير، جلد 2، صفحه 245 )؛بالحجة والبراهين (تفسير القرطبي، جلد 8، صفحه 121)یہ ایک پرامن انقلاب ہے۔ موجودہ زمانے میں سائنس کو ایک نظریاتی غلبہ کا درجہ حاصل ہے۔ حالاں کہ سائنس یا سائنسدانوں کی کوئی سیاسی حکومت نہیں۔

اظہارِ دین سے مرادکوئی عملي نظام قائم کرنا نہیں۔ بلکہ اس کا اصل مقصد یہ تھا کہ دینِ خداوندی کے راستے کی تمام رکاوٹوں کوعملاً ختم کردیا جائے۔ تاکہ جو انسان دینِ خداوندی کے راستے پر چلنا چاہے، وہ آزادانہ طور پر اس پر چل سکے اور خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، اپنی شخصیت ڈیولپ کرنے میں اس کو کوئی خارجی رکاوٹ پیش نہ آئے۔

دینِ حق کی یہ رکاوٹیں بنیادی طور پر دو تھیں، ایک شرک (polytheism) اور دوسري بادشاہت (kingship)۔ قدیم زمانےمیں شرک اور بادشاہت کے نظام کو رفتہ رفتہ کامل غلبہ حاصل ہوگیا تھا۔ اس بنا پرعملاً یہ ناممکن ہوگیا تھا کہ کوئی شخص دینِ خداوندی کے راستے پر کامل آزادی کے ساتھ چل سکے، اور اپنے آپ کو اللہ کا مطلوب انسان بنائے۔

 اعتقادی اعتبار سے شرک اور عملی اعتبار سے بادشاہت، اس راستے میں مستقل رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ اللہ نے پیغمبرِ اسلام اور آپ کے اصحاب کو خصوصی تائید عطا کی۔ تاکہ ان دونوں نظاموں کو وہ غلبہ کے مقام سے ہٹادیں، اور ایسے حالات پیدا کردیں جن میں انسانی تاریخ اپنے مطلوب رخ پر سفر کرسکے۔

پہلے نشانے کو ایک حدیثِ رسول میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: لَا ‌يَجْتَمِعُ ‌دِينَانِ فِي جَزِيرَةِ الْعَرَبِ (موطا امام مالک، حدیث نمبر1862)۔ یعنی جزیرۂ عرب میں دو دین اکٹھا نہیں ہوں گے۔ ساتویں صدی میں جب آپ نے یہ فرمایا اس وقت یہ حال تھا کہ مکہ کےمقدس کعبہ کو شرک کا مرکز بنا دیا گیا تھا۔ کعبہ کی عمارت میں تقریبا تین سو ساٹھ بت رکھ دیے گئےتھے۔ یہ دراصل مختلف قبائل کےبت تھے۔ اس لیے مشرک قبائل کے لیے کعبہ نے مذہبِ شرک کے مرکز کی حیثیت حاصل کرلی تھی۔

پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم نے اللہ کی خصوصی تائید کے تحت ایک دور رس منصوبہ بنایا۔ جس کے نتیجے میں بیس سال کے اندر کعبہ کی حیثیت بدل گئی۔ وہ شرک کے مرکز کے بجائے توحید کا مرکز بن گیا۔ ایسا اس طرح ہوا کہ عرب قبائل کے سردار بڑی تعدا میں اسلام میں داخل ہوئے۔ اس طرح پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کو یہ موقع ملا کہ وہ کعبہ کو بتوں سے پاک کردیں، اور ابراہیمی نقشہ کے مطابق اس کو توحید کے مرکز کی حیثیت دے دیں۔

پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کے مشن کا دوسرا نشانہ یہ تھا کہ جبري بادشاہت کا دور ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔ اس مشن کا ذکر ایک حدیثِ رسول میں ان الفاظ میں آیاہے: إِذَا ‌هَلَكَ ‌كِسْرَى فَلَا كِسْرَى بَعْدَهُ، وَإِذَا هَلَكَ قَيْصَرُ فَلَا قَيْصَرَ بَعْدَهُ(صحیح البخاری، حدیث نمبر3120)، یعنی جب کسریٰ ہلاک ہوگا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہیں ہوگا، اور جب قیصر ہلاک ہوگا تو اس کے بعد کوئی اور قیصر نہ ہوگا۔ کسریٰ سلطنت ایران (Sassanid Empire)کا حکمراں تھا۔ اور قیصر سلطنتِ روم (Byzantine Empire) کا حکمراں تھا۔ یہ دونوں قدیم بادشاہی نظام کی علامت بنے ہوئے تھے۔ اللہ کو یہ منظور تھا کہ یہ دونوں بادشاہتیں ختم ہوجائیں۔ اور پھر اس کے بعد کوئی بادشاہت کا نظام دوبارہ دنیا میں قائم نہ ہو۔

یہ ایک بے حد مشکل منصوبہ تھا۔ اس منصوبہ کو اس طرح آسان بنا دیا گیا کہ پہلے پیغمبرِا سلام کے زمانے میں ساسانی ایمپائر اور بازنطینی ایمپائر میں زبردست ٹکراؤ ہوا۔ اس کے نتیجے میں دونوں سلطنتیں کمزور ہوگئیں۔ اس کا اشارہ قرآن کی سورہ الروم کے ابتدا میں کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل عمر فاروق کے زمانے میں ہوئی، جبکہ اہل ایمان سے دونوں بادشاہتوں کا فوجی ٹکراؤ ہوا، اور نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں سلطنتیں ٹوٹ کر عملاً ختم ہوگئیں۔

اس طرح انسانی تاریخ میں ایک نیا دور شروع ہوا۔ یہ دور ایک تاریخی عمل (historical process)کی صورت میں تھا۔ اس تاریخی عمل میں اہل اسلام اور سیکولر گروہوں نے مشترک طور پر کام کیا۔ یہ ایک عظیم تاریخی عمل تھا، جس کی تکمیل یوروپ کی نشا ۃ ثانیہ (Renaissance) کے زمانے میں انجام پائی۔

شرک کے دور کا خاتمہ، توہماتی دور (age of superstition) کا خاتمہ تھا۔ اسلام سے پہلے پوری تاریخ میں توہماتی فکر چھایا ہوا تھا۔ اسلامی انقلاب کے بعد پہلی بار یہ توہماتی دور ختم ہوا، اور انسانوں کے درمیان عقلی تفکیر (rational thinking) کا دور شروع ہوا۔ اس کا نتیجےیہ ہوا کہ جدید علوم پیدا ہوئے، فطرت کے رموز دریافت ہوئے، سائنس کا دور آیا جس نے انسانی تاریخ کو ایک نئے تاریخی دور میں پہنچادیا۔

قرآن و حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اظہارِ دین کے منصوبے میں دو طرح کے اجزاء شامل تھے، ایک وہ جو رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں واقعہ بن گیا۔ شرک کے دور کا خاتمہ اسی پہلو سے تعلق رکھتا ہے۔ شرک کے دور کا خاتمہ رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے شروع ہوا، اور انھیں کے زمانے میں عملاً تکمیل تک پہنچ گیا۔ شرک کا کلچر اگرچہ اب بھی بعض گوشوں میں بظاہر موجود ہے، لیکن اب وہ کہیں بھی غالب حیثیت میں نہیں۔

اظہارِ دین کا دوسرا پہلو وہ ہے، جس کو قرآن و حدیث میں مستقبل کے صیغے میں بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً آیات کے ظہور کے بعدحق کی کامل تبیین (41:53)، یا حدیث کا یہ ارشاد: ليبلغن هذا الأمر ما بلغ الليل والنهار، ولا يترك الله بيت مدر ولا وبر إلا أدخله الله هذا الدين، بعز عزيز أو بذل ذليل (مسند احمد، حدیث نمبر16957)يعني يه معامله پهنچے گا وهاں تك جهاں تك دن ورات پهنچتے هيں، اور كوئي گھر يا خيمه نهيں چھوڑے گا، مگر الله وهاں اس دين كو داخل كردے گا، عزت والے كو عزت كے ساتھ اور ذلت والے كو ذلت كے ساتھ۔

اظہارِ دین کا یہ دوسرا پہلو، ایک ایسا پہلو تھا جو نسل در نسل گہری کوشش کے بعد مکمل ہونے والا تھا۔ اس لیے اللہ نے یہ مقدر کردیا کہ اس کام میں سیکولر لوگوں کی تائید بھی بھرپور طور پر حاصل ہو۔ یہی وہ حقیقت ہے جو ایک حدیثِ رسول میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: إن الله ليؤيد هذا الدين بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، حدیث نمبر3062)۔يعني الله ضرو ر اس دين كي تائيد فاجر آدمي كے ذريعه كرے گا۔

اظہارِ دین کا یہ انقلاب اکیسویں صدی میں اپنےآخری تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔ اب اہلِ ایمان کا یہ کام ہے کہ وہ اس پیدا شدہ مواقع کو بھر پور طور پر دینِ خداوندی کی عالمی دعوت کے لیے استعمال کریں۔ تاکہ کوئی پیدا ہونے والا انسان اس سے بےخبر نہ رہے کہ اس کے خالق نے اس کو کیوں پیدا کیا ہے، اور خالق کا تخلیقی منصوبہ (creation plan)اس کے بارے میں کیا ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom