دورِ تائید کا آغاز

قدیم زمانے میں  جنگ بہت عام تھی۔ قبائل کے درمیان جنگ، بادشاہوں کے درمیان جنگ، وغیرہ۔ لوگ مسائل کو حل کرنے کا ایک ہی طریقہ جانتے تھے— جنگ کا طریقہ ۔ اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کو اس معاملے میں  ایک صراطِ مستقیم (الفتح، 48:2) کی طرف رہنمائی کی ۔ یعنی جنگی ٹکراؤ کے بجائے پر امن تدبیر (peaceful management)کے ذریعے مسائل کو حل کرنا۔ پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب نے اس تدبیر کو اتنے بڑے پیمانے پر استعمال کیا کہ تاریخ میں  نیا دور آگیا، یعنی ٹکراؤ کے بجائے تائید کا دور ۔ اس مقصد کے لیے ساتویں صدی عیسوی میں  ایک منصوبہ بند عمل کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں  انسانی تاریخ میں  ایک نیا عمل (process) جاری ہوا۔ یہ عمل  (process) انیسویں صدی میں  اپنی تکمیل (culmination) تک پہنچ گیا۔ اس تکمیلی مرحلہ کو ایک لفظ میں  جدید تہذیب (modern civilization) کہا جا سکتا ہے۔ جدید تہذیب اسلام کے لیے ایک تائیدی تہذیب (supporting civilization) ہے۔

اس دورِ تائید کو قرآن میں   لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (9:33) کے الفاظ میں  بیان کیا گیا تھا۔ یعنی دین سے تعلق رکھنے والے تمام اسباب دینِ خداوندی کے موافق ہو جائیں۔ دینِ خداوندی اور دینِ انسانی میں  ٹکراؤ کی صورت عملاً ختم ہوجائے۔یہ انسانی تاریخ کا ایک عظیم منصوبہ تھا۔ اللہ نے ایسے حالات پیدا کیے کہ اہلِ ایمان کی جماعت کے علاوہ دوسرے لوگ بھی اس میں  موید (supporter) بن گئے۔ یہ پیشین گوئی زیادہ واضح الفاظ میں  حدیث کی مختلف کتابوںمیں  الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ آئی ہے:

1۔  إن الله ليؤيد هذا الدين بالرجل الفاجر (۔ صحیح البخاری ،حدیث نمبر3062)۔

2 ۔ إن الله عز وجل ليؤيد الإسلام برجال ما هم من أهله (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر56)۔

 3۔ إن الله سيؤيد هذا الدين بأقوام لا خلاق لهم  (مسند احمد، حدیث نمبر 20454)۔

4۔  ليؤيدنّ الله هذا الدين بقوم لا خلاق لهم (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر4517)۔

ان احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ مستقبل میں  ضرور ایسا ہوگا کہ اللہ تعالی اس دین کی تائید ایسے لوگوں کے ذریعے کرے گا جو اہل دین میں  سے نہ ہوں گے۔وہ اس کام کو ڈیو لپمنٹ (development) کے نام سے انجام دیں گے۔ لیکن عملاً ان کی پیدا کردہ دنیا تائیدی معنوں میں  پرو اسلام (pro-Islam) بن جائے گی۔

موجودہ زمانےمیں  یہ واقعہ کامل طور پر انجام پاچکا ہے۔ وہ چیز جس کو مسلمان عام طور پر اسلامو فوبیا (Islamophobia) کہتے ہیں۔ وہ دراصل پرو اسلام ظاہرہ (pro-Islam phenomenon) ہے۔ لیکن مسلمان اپنی بے خبری کی بنا پر ایک مثبت واقعے کو منفی واقعے کے طور پر لیے ہوئے ہیں۔ اس منفی طرز فکر نے مسلمانوں کو بیک وقت دو نقصان پہنچائے هيں۔ ایک یہ کہ وہ دورِ حاضر میں  بے جگہ کمیونٹی (displaced)بن گئے۔ اور دوسرے یہ کہ وہ جدید مواقع (modern opportunities) کو اسلام کے حق میں  استعمال کرنے میں  عملاً ناکام رہے۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مغربی قومیں  براہ راست معنوں میں  اسلام کے حق میں  تائیدی رول انجام دے رہی ہيں۔ ایسا ہونا غیر فطری ہے۔ اس قسم کا تائیدی رول کبھی کوئی کمیونٹی کسی دوسری کمیونٹی  کے لیے انجام نہیں دیتی۔اصل یہ ہے کہ ’’غیر اہلِ دین‘‘کا یہ تائیدی رول براہِ راست طور پر نہیں، بلکہ بالواسطہ طور پر انجام پایا ہے۔

موجودہ زمانے میں  صنعتی انقلاب (industrial revolution) ہوا۔ اس کے نتیجے میں  دنیا میں  ایک نیا ظاہرہ وجود میں  آیا جس کو کثیر پیداوار (mass production)کا ظاہرہ کہا جاتا ہے۔ نئے صنعتی نظام کے تحت چیزیں اتنی بڑی مقدار میں  تیار ہونے لگیں ، جن کی کھپت مقامی طور پر ناممکن تھی۔ اس کے نتیجے میں  مارکیٹ کا نیا تصور پیدا ہوا۔ چیزوں کو کمرشیل نظریے کے تحت تیار کیا جانے لگا۔ اس کے نتیجے میں  تاریخ میں  ایک نیا انقلاب آیا، جو قدیم زمانے میں  موجود نہ تھا۔ قدیم زمانے میں  ایک مراعات یافتہ طبقہ (privileged class) موجود ہوتا تھا۔ مثلا ًبادشاہ اور لینڈلارڈ، وغیرہ۔ صرف یہی لوگ بڑی چیزوں کو حاصل کرسکتے تھے۔ موجودہ زمانے میں  جو کمرشیل انقلاب آیا، اس کے نتیجے میں  یہ ہوا کہ ہر چیز ہر ایک کے لیے (everything for everyone)کا کلچر رائج ہوگیا۔اب ہر چیز ہر ایک کے دسترس میں  ہوگئی۔ یہ چیز پہلے کبھی دنیامیں  موجود نہ تھی۔

مثلاً پہلے زمانے میں  کوئی بڑی سواری صرف بادشاہ کے لیے ممکن تھی۔ اب ہر آدمی کار اور ہوائی جہاز استعمال کررہا ہے۔ پہلے زمانےمیں  پیغام رساں کبوتر (homing pigeon)کسی بہت بڑے آدمی کے لیے قابل استعمال ہوا کرتا تھا۔ مگر آج ہم ایج آف کمیونی کیشن کے زمانے میں  ہیں۔ اب ہر انسان کے لیے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ وہ ٹکنالوجی کا استعمال کرکےپیغام رسانی کا بڑے سے بڑا مقصد حاصل کرسکے، وغیرہ، وغیرہ۔

موجودہ زمانے میں  یہ واقعہ بہت بڑے پیمانے پر انجام پایا۔ یہ گویا مواقع کے انفجار (opportunities explosion) کا زمانہ ہے۔اب ہر آدمی کے لیے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ وہ جدید مواقع کو استعمال کرکے بڑے سے بڑا کام انجام دے سکے۔ یہی امکان پوری طرح اہلِ ایمان کے لیے کھلا ہوا ہے۔ عمومی طور پر پیدا ہونے والا یہ امکان تاریخ کا بالکل نیا ظاہرہ ہے۔یہ نیا ظاہرہ گویاتائیدي کلچر ہے۔

  

کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ اکبر نے اپنے لڑکے شہزادہ سلیم کی شادی میں  اس کو چار سو ہاتھی کا تحفہ دیا تھا۔ یہ چار سو ہاتھی دوہد (گجرات) کے گھنے جنگلوں سے حاصل کیےگئے تھے۔ مگر آج گجرات کے اس علاقہ ميں نہ کہیں گھنے جنگل نظر آتے ہیں، اور نہ ہاتھی۔

یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زمانہ کس طرح بدلتا رہتا ہے۔ ایک جگہ جہاں آج’’جنگل‘‘  نظر آتا ہے، وہاں کل ’’میدان‘‘ نظر آنے لگتا ہے۔ جہاں آج ہاتھیوں کے غول گھومتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، وہاں جب کل کا سورج نکلتا ہے ہے تو دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ وہاں انسان چل پھر رہے ہیں۔

زمانے کے اس بدلتے ہوئے روپ میں  بے شمار نشانیاں ہیں۔ مگر نشانیوں سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں، جو ان کی گہرائیوں میں  جھانکنے کی بصیرت رکھتے ہوں۔ (ڈائری، 1985)

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom