نئے دور کا آغاز
پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کے مدنی دور میں وہ واقعہ پیش آیا جو اسلامی تاریخ میں صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ يه واقعه چھ ہجری میں پيش آيا۔صلح حدیبیہ اصلاً ایک پر امن معاہدے کا نام تھا۔ اس صلح سے پہلے اہل توحید اور اہل شرک کےدرمیان ٹکراؤ کا سلسلہ جاری تھا۔ جس نے کئی بار جنگ کی صورت اختیار کرلی تھی۔ صلح حدیبیہ کے بعد یہ صورتِ حال ختم ہوگئی۔ اس کے بعد عرب میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا، جب کہ اہل ایمان کو یہ آزادی مل گئی کہ وہ ملک میں پر امن طور پر اپنا مشن جاری رکھیں۔ فریقِ ثانی کی طرف سے ان کے لیے متشددانہ مزاحمت پیش نہیں آئے گی۔
یہ معاہدہ جب فریقین کے درمیان طے پاگیا تو اس کے بعد قرآن کی سورہ الفتح نازل ہوئی۔ اس سورہ میں اللہ کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا :إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا. لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا (48:1-2)۔ بے شک ہم نے تم کو کھلی ہوئی فتح دے دی۔ تاکہ اﷲ تمھاری اگلی اور پچھلی خطائیں معاف کردے۔ اور تمھارے اوپر اپنی نعمت کی تکمیل کردے۔ اور تم کوسیدھا راستہ دکھائے۔
قرآن کی اس آیت میں صراطِ مستقیم (straight path) سے کیا مراد ہے۔ معاہدہ حدیبیہ کے وقت اور اس کے بعد جو واقعہ پیش آیا، وہ اس معاملےمیں شانِ نزول کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس پس منظر کو لے کر اس آیت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہاں سیدھا راستہ سے مراد مقصد کے حصول کا پر امن طریقہ (peaceful method) ہے۔ صلح حدیبیہ کے بعد پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم نے پیس فل میتھڈ کے ذریعے اپنے مشن کو زیادہ موثر طور پر جاری رکھا، اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند سالوں میں پورا عرب اسلام کا علاقہ بن گیا۔ اس سے پہلے عرب میں شرک کا غلبہ تھا۔ اب پورے عرب میں توحید کا غلبہ قائم ہوگیا۔
یہ پر امن طریقِ کار (peaceful method)کا کرشمہ تھا۔ صلح حدیبیہ کے بعد پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم نے اپنے مشن کی پرامن منصوبہ بندی کی اور اس کا نتیجہ فتح مبین (clear victory) كي شكل ميں ظاهر هوا۔ یہاں فتح مبین سے مراد سیاسی فتح نہیں ہے، بلکہ نظریاتی فتح (ideological victory) ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام کا نشانہ نظریاتی فتح ہے، نہ کہ سیاسی فتح۔ یہاں صلح حدیبیہ کا مقصد صرف عرب میں’’فتح مبین‘‘ نہیں تھا۔ بلکہ یہ دنیا کے لیے ایک انقلاب کا آغاز تھا۔صلح حدیبیہ کے ذریعے تاریخ میں ایک نیا عمل (process) جاری ہوا۔ یہ عمل مختلف مراحل سے گزرتا ہوا تاریخ میں جاری رہا۔ یہاں تک کہ بیسویں صدی میں وہ اپنی آخری تکمیل تک پہنچ گیا۔ جب کہ اقوامِ متحدہ (UNO) کے عالمی پلیٹ فارم پر دنیا کی تمام قوموں نے متحدہ طور پر یہ طے کیا کہ اب دنیا میں بطور اصول ایک ہی طریقِ کار تسلیم شدہ طریقِ کار ہوگا، اور وہ پرامن طریقِ کار ہے۔ اب اصولی طور پر کسی بھی قوم کو یہ حق نہیں ہوگا کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے متشددانہ طریقِ کار (violent method) کو اختیار کرے۔
تاریخ کو اس مقام تک پہنچانے میں مختلف واقعات کا حصہ ہے۔ ان میں سے دو اہم واقعات وہ ہیں، جن کو پہلی عالمی جنگ(1914-1918)اور دوسری عالمی جنگ (1939-1945) کہا جاتا ہے۔ ان دونوں جنگوں میں دنیا کی تمام بڑی طاقتیں براہ راست طور پر یا بالواسطہ طور پر شریک تھیں۔اس کے باوجود اس جنگ کا کوئی مثبت نتیجہ بر آمد نہیں ہوا۔ جنگ کے ہر فریق کو غیرمعمولی نقصان اٹھانا پڑا۔
یہ دونوں جنگیں تاریخ کی عظیم جنگیں (great wars) کہی جاتی ہیں۔ اس لیے کہ ان جنگوں میں ایسے خطرناک ہتھیار استعمال ہوئے، جو اس سے پہلے کبھی استعمال نہیں ہوئے تھے۔ اس کے باوجود کوئی فریق اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ جان و مال کی بے پناہ قربانی کے باوجود ہر فریق کے حصے میں تباہی کے سوا کچھ اور نہیں آیا۔ان عظیم جنگوں کے بعد تاریخ میں پہلی بار اس سلسلے میں ایک جبر (compulsion) کی صورتِ حال پیدا ہوئی۔ تمام قوموں نے اصولی طور پر یہ فیصلہ کیا کہ اب ہمارا آپشن (option)صرف پر امن طریقِ کار ہوگا، جنگ اور تشدد کا طریقہ نہیں۔ چنانچہ دوسری عالمی جنگ کے خاتمہ پر اقوامِ متحدہ وجود میں آئی جو گویا عالمی صلح حدیبیہ کے ہم معنی تھی۔
اس سے پہلے انسانی تاریخ میں اعلان کے ساتھ یا بلااعلان یہ سمجھا جاتا تھا کہ مقصد کے حصول کا واحد ذریعہ جنگ ہے۔ یہ تصور عملاً پوری تاریخ میں جاری رہا۔ اس تصور کا باقاعدہ خاتمہ صرف بیسویں صدی کے وسط میں ہوا جب کہ اقوامِ متحدہ کا عالمی ادارہ تمام قوموں کے اتفاقِ رائے سے قائم ہوگیا۔
امن (peace)اس دنیا کا کائناتی کلچر ہے۔ انسان کے سوا پوری کائنات ہمیشہ سے اسی امن کلچر پر قائم ہے۔ انسان کو خالق نے آزادی عطا کی ہے۔ اس لیے انسانی دنیا میں یہ کلچرعملاً قائم نہ ہوسکا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ انسان اپنی آزادی کے غلط استعمال کی بنا پر بار بار تشدد کا طریقہ اختیار کرتا رہا۔ یہاں تک کہ خالق نے انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، تاریخ کو اس طرح مینج (manage) کیا کہ تاریخ میں عملاً ایک جبر (compulsion) کی صورت پیدا ہوگئی۔ انسان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ انسان جبر اور تشدد کو اصولی طور پرقابلِ ترک قرار دے دے۔ اب اگر دنیا میں کہیں جنگ کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اس کی حیثیت ایک استثنا (exception)کی ہوتی ہے۔ جب کہ ماضی کی تاریخ میں جنگ کو عموم کی حیثیت حاصل تھی۔
اب دنیا دو گروہوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ ایک سیکولر دنیا اور دوسري مسلم دنیا۔ سیکولر دنیا کا مسلمہ معیار (accepted criterion) صرف ایک ہے، اور وہ نتیجہ (result) ہے۔ سیکولر دنیا کا اصول یہ ہے کہ جو عمل بےنتیجہ ہو، اس کو اختیار نہیں کیا جائے گا، صرف وہ عمل اختیار کیا جائے گا جو مطلوب نتیجہ پیدا کرنے والا ہو۔ سیکولر دنیا عقل کے اصول پر چلتی ہے، اور عقل کا اصول یہ ہے کہ نتیجہ خیز کام کرو، اور بےنتیجہ کام کو چھوڑ دو۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کے بعد دنیا میں نوآبادیات کا دور آیا۔ نو آبادیاتي نظام اصلاً صنعتی نظام تھا۔ ابتدائی دور میں قدیم تصور کے تحت نوآبادی طاقتوں نے یہ سمجھا کہ ہمیں اپنی صنعت کو فروغ دینے کے لیے پولیٹکل پاور کی بھی ضرورت ہے۔ چنانچہ انھوں نے اپنی صنعتی سرگرمیوں کے ساتھ ہر جگہ پولیٹکل اقتدار قائم کرنے کی کوشش کی، تاکہ وہ اپنی صنعتی سرگرمیوں کو سیاسی شیلٹر (political shelter) عطا کرسکیں۔
لیکن نوآبادی طاقتوں کو تجربے کے بعد محسوس ہوا کہ جدید دور قوم پرستی (nationalism) کا دور ہے۔ اس دور میں سیاسی شیلٹر کا تصور ایک ناقابلِ عمل تصور بن چکا ہے۔ چنانچہ انھوں نے سیاسی شیلٹر کا ایک بدل دریافت کرلیا۔ اور وہ تنظیم (organization) تھا ۔ انھوں نے کامیاب طور پر یہ منصوبہ بنایا کہ سیاسی شیلٹر کے مقصد کو بہتر تنظیم کے ذریعے حاصل کریں۔
اب انھوں نے اپنی صنعتی سرگرمیوں کے لیے صرف دو چیزوں پر ساری توجہ صرف کردی۔ اور وہ تھا— کواليٹي اور آرگنائزیشن۔ انھوں نے بہتر کوالیٹی اور بہتر تنظیم کے ذریعہ زیادہ بڑے پیمانے پر اپنے اس مقصد کو حاصل کرلیا ، جس کو ناکام طور پر نو آبادیات کے تصور کے تحت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ جدیددور میں نو آبادی طاقتوں نے جو طریقے استعمال کیے ہیں، ان میں سے دو طریقے وہ ہیں جن کوانوسٹمنٹ (investment) اور آؤٹ سورسنگ (outsourcing) کہا جاتا ہے۔ یہ نئے طریقے مکمل طور پر پرامن اور غیر سیاسی طریقے ہیں ، لیکن ان طریقوں کے ذریعے موجودہ زمانے کی ترقی یافتہ قوموں نے اکیسویں صدی میں بہت بڑے پیمانے پر اپنا صنعتی ایمپائر (industrial empire) قائم کرلیا۔ بغیر اس کے کہ اس کو کسی کی طرف سے مزاحمت کا سامنا پیش آئے۔ یہ حقیقت موجودہ زمانے کی تمام قوموںنے دریافت کرلی۔ اس میں صرف ایک قوم کا استثنا ہے، اور وہ مسلمان ہے۔ آج کی دنیا میں جو تشدد (militancy) جاری ہے، وہ عملاً مسلم تشدد (militancy) ہے۔ یہ صرف مسلمان ہیں جو آج کی دنیا میں متشددانہ طریقِ کار (violent method) کا طریقہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس مسلم تشدد کی مثالیں تقریباً ہر روز میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔ نائن الیون 2011اور پیرس اٹیک 2015 اس کی چند مثالیں ہیں۔
اس عموم میں مسلمانوں کے استثنا کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان بعد کی تاریخ میں جو علمی لٹریچر بنا ، وہ امن کے اصول کے بجائے جہاد (بمعنی قتال ) کے اصول پر بنا۔ یہ رسول اور اصحابِ رسول کے دین سے ایک انحراف کے ہم معنی تھا۔ لیکن وہ مسلم اہلِ علم کے درمیان اتنا زیادہ رائج ہوا کہ آخرکار اس نے عقیدہ کی صورت اختیار کرلیا۔ مسلمانوں کا تشدد مبنی برعقیدہ تشدد ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کے نام پر لڑ کر مرجاؤ ، اور اس کے بعد سیدھے جنت میں پہنچ جاؤ۔ یہ عقیدہ اتنا زیادہ بڑھا کہ موجودہ زمانے میں ایسے علما پیدا ہوئے جنھوں نے خود کش بمباری (suicide bombing) کو یہ کہہ کر مقدس درجہ دے دیا کہ وہ خود کشی نہیں ہے، بلکہ استشہاد (طلب شہادت) ہے۔ یہ نظریہ بلاشبہ ایک بے اصل نظریہ ہے۔ اس کی تائید میں کوئی بھی آیت یا حدیث موجود نہیں۔ لیکن اب وہ اتنا زیادہ عام ہوچکا ہے کہ کوئی قابلِ ذکر عالم اس کے خلاف بولنے والا نہیں۔ پیغمبر ِ اسلام صلى الله عليه وسلم نے پیشین گوئی کی زبان میں یہ کہا تھا : إذا وضع السيف في أمتي، فلن يرفع عنهم إلى يوم القيامة (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر3952) ۔ یعنی جب میری امت میں تلوار اٹھ جائے گی، تو وہ اس سے قیامت تک ہر گز نہیں دور ہوگی۔