امن کا فارمولا

امن کا یہ فارمولا جو خدا نے اپنے علم کے تحت بتایا، وہ کیا تھا۔ وہ یہ تھا کہ ہرمسئلہ کے ساتھ مواقع موجود رہتے ہیں(الشرح، 94:5-6)۔ اِس لیے تم مسائل کو نظر انداز کرو اور مواقع کو استعمال کرو:

Ignore the problem, and avail the opportunities.

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کی رہنمائی سے اِس فارمولے کو سمجھا اور اس کو حدیبیہ ایگری مینٹ (628 ء) کی شکل میں  استعمال کیا۔ حدیبیہ ایگری مینٹ گویا کہ امن فارمولے کا ایک کامیاب مظاہرہ (demonstration) تھا۔ (حدیبیہ ایگری مینٹ کی تفصیلات میری کتابوں میں  دیکھی جاسکتی ہیں۔ مثلاً امن عالم اور مطالعہ سیرت ،وغیرہ)۔

امن کا یہ فارمولا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کبھی کوئی شخص دریافت نہ کرسکا۔آپ نے اگرچہ اپنی زندگی میں  اِس فارمولے کو نہایت کامیاب طور پر استعمال کیا تھا، لیکن میرے علم کے مطابق، کوئی بھی شخص اِس کو حقیقی طورپر سمجھ نہ سکا، حتی کہ خود مسلمان بھی اِس فارمولے کو سمجھنے سے مکمل طورپر عاجز رہے۔ موجودہ زمانے میں  مسلمان ہر جگہ مسائل (problems) سے لڑ رہے ہیں۔ وہ اِس حقیقت کو جان نہ سکے کہ مسائل کے باوجود اُن کے لیے نہایت اعلیٰ مواقع موجود ہیں۔ اُن کو چاہیے تھا کہ وہ مسائل کو نظر انداز کرتے اور مواقع (opportunities)کو استعمال کرتے، لیکن اپنی بے شعوری کی بنا پر وہ اِس حکمت کو دریافت کرنے میں  ناکام رہے۔

پیغمبر اسلام کے اِس امن فارمولے نے تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ اِس نئے دور کو ایک لفظ میں  ڈی سنٹرلائزیشن آف پولٹکل پاور (decentralization of political power) کہاجاسکتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اب اس پراسس کا آغاز ہورہا ہے، جس میں  سیاسی اقتدار صرف ایک ثانوی چیز ہے۔ اولین چیزیں وہ ہیں جو سیاسی اقتدار کے باہر پائی جاتی ہیں۔ موجودہ زمانے میں  انسٹی ٹیوشن (institution)کا تصور اِسی تاریخی پراسس (historical process)کا اگلا مرحلہ ہے۔

موجودہ زمانے میں  ایسا ہوا ہے کہ سیاسی اقتدار کے باہر مختلف مقاصد کے لیے انسٹی ٹیوشن بنائے جاتے ہیں۔ مثلاً تعلیم کے لیے، صنعت وتجارت کے لیے، سماجی فلاح کے لیے اور مشنری ورک کے لیے، وغیرہ۔ اِن اداروں کے ذریعے اتنے بڑے بڑے کام لیے جارہے ہیں کہ لوگوں نے حکومتی اقتدار (political power)کے بغیر مختلف عنوانات سے اپنے ایمپائر بنا رکھے ہیں۔ اِس تبدیلی کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ماضی کے برعکس، حکومت کا دائرہ سمٹ کر اب صرف انتظامیہ (administration) تک محدود ہوگیا ہے۔ یہ تاریخ کی ایک عظیم تبدیلی ہے، مگر اِس تبدیلی کا آغاز پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے کیا تھا۔غالباً اسی تبدیلی کی طرف قرآن کی اس آیت میں  اشارہ ہے:وَأُخْرَى تُحِبُّونَهَا نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ (61:13)۔ یعنی ایک اور چیز بھی جس کی تم تمنا رکھتے ہو، اللہ کی مدد اورقریب کی فتح، اور مومنوں کو خوش خبری دے دو ۔

اِس تبدیلی نے اِس بات کو ممکن بنا دیا ہے کہ حکومت سے ٹکراؤ کیے بغیر خالص پُرامن طریقِ کار کے ذریعے بہت بڑے بڑے کام کیے جاسکیں۔ باشعور قوموں نے اِس امکان سے فائدہ اٹھا کر عملاً ایسا کررکھا ہے۔ چنانچہ اِن لوگوں نے حکومت سے باہر رہتے ہوئے اور حکومت سے ٹکراؤ کیے بغیر انتہائی اعلیٰ پیمانے پر اپنا میڈیا ایمپائر اور ایجوکیشنل ایمپائر اور انڈسٹریل ایمپائر اور مشنری ایمپائر بنالیا ہے ۔ مگر جہاں تک اِس امکان کی دریافت کا تعلق ہے، وہ پہلی بار پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کی رہنمائی کے تحت حاصل ہوئی۔ اِس استثنائی معرفت کی اِس کے سوا کوئی اور توجیہہ نہیں کی جاسکتی کہ یہ مانا جائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے پیغمبر تھے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom