ایک علامتی مثال

اہلِ عرب اور شام (Syria) کے درمیان تعلقات قدیم زمانے سے قائم تھے۔ شام کے علاقے سے گزر کر ترکی پہنچنا بہت آسان تھا۔ یہ فاصلہ 500 میل سے بھی کم تھا۔ چنانچہ اصحاب رسول کی جماعت ساتویں صدی عیسوی میں  شام کے علاقے سے گزر کر ترکی پہنچنے لگی۔ اِس آمدورفت کے دوران ترکی میں  اسلام پھیلنے لگا، یہاں تک کہ ترکی کے باشندوں کی اکثریت اسلام میں  داخل ہوگئی۔

لیکن قانونِ فطرت کے مطابق، بعد کو زوال شروع ہوا۔ انیسویں صدی کے آخر میں  ترکی کے مسلمانوں کا یہ زوال آخری حد تک پہنچ گیا۔ اِس دور میں  ترکی کے علما کا کیا حال تھا، اُس کا اندازہ ایک علامتی مثال سے ہوتا ہے۔ خلیفہ عبد الحمید ثانی کا زمانۂ حکومت 1876 سے 1909 تک ہے۔ اس نے ترکی میں  ریفارم لانے کی کوشش کی۔ اس نے تعلیمی اصلاحات کا نفاذ كيا۔ تاہم روایتی ذہن کی بنا پر ملک میں  اس کی شدید مخالفت ہوئی اور اس کو تخت سے معزول کردیاگیا۔

قدیم زمانے میں  ترکی اپنے بحری بیڑے کے لیے مشہور تھا، مگر اٹھارھویں صدی میں  جب یورپ میں  بھاپ (steam) کی طاقت دریافت ہوگئی اور بحری جہازوں کو اسٹیم انجن کے ذریعہ چلانے کا دورآیا تو ترکی اس میدان میں  بہت پیچھے ہوگیا۔ اُس وقت وہاں کے مذہبی طبقے کا فکری زوال اس حد تک پہنچ چکا تھا کہ نئے طرز كي دخاني كشتيوں كو حاصل کرنا اور ان کو استعمال کرنا بھی اُن كو ایک غیرمذہبی فعل نظر آنے لگا۔

سلطان عبد الحمید ثانی (وفات1918 )پہلا شخص تھا جس نے بھاپ کی طاقت سے چلنے والا بحری بیڑہ (اُسطول) تیار کرایا۔ کہاجاتا ہے کہ جب دُخانی کشتیاں تیار ہوگئیں تو اس کے بعد وقت کے تُرک علما نے اصرار کیا کہ اس کو استعمال کرنے سے پہلے اُس پر ختمِ بخاری کی رسم ادا کرنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر کشتیوں کو سمندر میں  داخل کرنا ان کے نزدیک خطرناک تھا۔ علما کا اصرار جب بڑھا تو اُس وقت کے ایک دانش ور جمیل صدقی الزھاوی (وفات1936) نے اِس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا — اِس زمانے ميں بحري بيڑا بخار (بھاپ) سے چلتا هے، نه كه بخاري سے:إن الأساطيل البحرية في هذا العصر تسير بالبخار لا بالبخاري۔

مگر یہ صرف فکری زوال کا مسئلہ تھا، وہ خدائی مذہب کا مسئلہ نہ تھا۔ اِس معاملے میں  اسلام کا موقف اُس حدیث سے معلوم ہوتاہے جو صحیح مسلم میں آئی ہے۔ مدینہ میں  ’تابیر نخل‘ کا مسئلہ پیدا ہوا۔ اُس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اصولی بات اِن الفاظ میں  فرمائی: أنتم أعلم بأمر دنیاکم ( صحيح مسلم، حديث نمبر2363) یعنی تم اپنی دنیا کے معاملے میں  زیادہ جانتے ہو۔

تابیر نخل یا پالی نیشن (pollination) کا معاملہ ایک سیکولر شعبے سے تعلق رکھتا ہے۔اِسي طرح ٹکنالوجی یا سائنس کی دریافتیں سیکولر شعبے سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں۔ اِس طرح کے معاملات میں  سائنٹفک رسرچ کا لحاظ کیا جائے گا، اُن کو عقیدے سے جوڑ کر فتویٰ دینا ہر گز درست نہیں۔

کمال اتاترک کی اصلاحات اصلاً ايك زوال یافتہ مسلم کلچر کے خلاف تھیں۔حقیقت یہ ہے کہ ترکی کو قدیم روایتی دور سے نکال کرنئے سائنسی دور میں  پہنچانے کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا۔ اتاترک کی کارروائیوں کو اس کے انتہا پسندانہ طریقِ کار کے اعتبار سے نہیں دیکھنا چاہئے، بلکہ ضرورت هے كه اس کو اُس کے نتیجہ (result) کے اعتبار سے دیکھا جائے۔ اس میں  کوئی شک نہیں کہ کمال ازم (Kemalism) کے نتیجے میں  ترکی میں  ایک نئی بيداری آئی۔ اِس کے بعد ترکی میں  ایک نیا دور شروع ہوا۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ موجودہ دنیا کے 58 مسلم ملکوں میں  ترکی ایک منفرد ملک ہے۔ بقیہ مسلم ممالک ابھی تک کم وبیش دورِقدیم میں  جی رہے ہیں۔ ترکی وہ واحد مسلم ملک ہے، جس نے پورے معنوں میں  دور جدید کے نقشے میں  ترقی یافتہ ملکوں کے برابر جگہ حاصل کی ہے۔

اس فرق کو واضح کرنے کے لیے ایک تقابلی مثال یہاں درج کی جاتی ہے۔ جون 2011 میں  راقم الحروف کا ایک سفر امریکا کے لیے ہوا تھا۔ اِس سفر کے دوران مجھ کو ایک امریکی شہر کے مسلم سنٹر میں  خطاب کرنے کا موقع ملا۔ اِس اجتماع میں  زیادہ تر وہ مسلمان تھے، جو پاکستان سے آکر امریکا میں  مقیم ہوئے ہیں۔ میں  نے اپنی تقریر کے دوران حضرت ابو بکر صدیق کا ایک واقعہ بیان کیا۔ اس واقعے کو بيان کرتے ہوئے میں نے اُن کا ایک جملہ اِن الفاظ میں  نقل کیا: من کان یعبد محمداً فإن محمداً قد مات، ومن کان یعبد اللہ فإن اللہ حي لا یموت (صحيح ابن ماجه، حديث نمبر1329)۔یعنی جو شخص محمد كي عبادت كرتا تھا تو محمد کی وفات ہوگئی، اور جو شخص اللہ كي عبادت كرتا ہے تو اللہ زندہ ہے، اس کی وفات ہونے والی نہیں۔

کچھ مسلمان میرے اِس جملے پر زور زور سے بولنے لگے۔انھوں نے اتنا ہنگامہ کیا کہ اجتماع کو انتشار کی حالت میں  ختم کرنا پڑا۔ ایک نوجوان نے اسٹیج پر آکر غصے میں  کہا:

You cited our Prophet by name several times, but you never said: صلی اللہ علیہ وسلم

اب ایک مختلف مثال لیجئے۔ ایسا ہی ایک واقعہ ترکی کی ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں  ہوا، جو 5  مئی 2012  کو ترکی کے شہر غازی عین تاب (Gaziantep) میں  ہوئی تھی۔ میں  نے اپنی تقریر میں  دعوت الی اللہ کی اہمیت كو بتاتے ہوئے کہا کہ اصحاب رسول میں  سے کئی افراد دعوت وتبلیغ کے لیے ترکی آئے۔ یہاں ان کی قبریں ابھی تک موجود ہیں۔ یہ اصحاب، زبانِ حال سے پیغمبر کی امت کو پکاررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں:

O Ummat-e-Muhammad, where are you? Rise and complete the prophetic mission by doing dawah work in the present world.

میں  نے اپنا یہ جملہ بار بار دہرایا، دورانِ تقرير ميں نے كئي بار رسول الله كا نام ليا، مگر وہاں یہ حال ہوا کہ لوگ میری بات کو سن کر رونے لگے۔ اجتماع کے بعد بہت سے لوگ مجھ سے ملے اور انھوں نے کہا کہ آپ نے اصل بات کی طرف توجه دلائي، آپ نے ہم کو بیدار کردیا، آپ نے ہم کو ہمارا بھولا ہوا سبق یاد دلایا، وغیرہ۔ وہاں کسی ایک شخص نے بھی یہ اعتراض نہیں کیا کہ آپ نے رسول الله کا نام لیا، مگر آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم نہیں کہا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom