كشتي كا انتخاب كيوں
صورِ اسرافيل قيامت كا ناطق اعلان هے اور كشتي نوح (دابّه) قيامت كا غير ناطق اعلان۔ صورِاسرافيل جس حقيقت كو بول كر بتائے گا، اسي حقيقت كا اعلان خاموش زبان ميں كشتي نوح (دابه) كے ذريعے كياجائے گا۔
اِس مقصد كے لیے كشتي كا انتخاب كيوں كيا گيا۔ حسب ذيل پهلوؤں پر غور كرنے سے اندازه هوتا هے كه قديم زمانے ميں كشتي هي اس مقصد كا سب سے زياده بهتر ذريعه بن سكتي تھي:
1۔ سنت الله كے مطابق، كشتي كے لیے لفظِ دابّه كي صورت ميں ايك ملتَبَس نام (disguised name) دركار تھا، اور كشتي كے لیے لفظِ دابّه كي صورت ميں ايك ملتبس نام نهايت آساني سے حاصل هوتا هے۔
2۔ مطلوب مقصد كے لیے ايك ايسي چيز دركار تھي، جو طوفان ميں تير كر ايك جگه سے دوسري جگه جائے۔ يه كام صرف كشتي كے ذريعےهوسكتا تھا۔
3۔ اِس كام كے لیے ايك ايسا ذريعه دركار تھا، جو كچھ لوگوں كو بچائے اور كچھ لوگوں كو تباه كردے۔ يه كام بھي صرف كشتي كے ذريعے ممكن تھا۔
4۔ اِس كام كے لیے ايك ايسي چيز كي ضرورت تھي جو هزاروں سال تك برف كے نيچے دب كر باقي رهے،اور بعد كو ظاهر هوكر وه لوگوں كے سامنے آئے۔
5۔ كشتي كا ايك فائده يه بھي تھا كه وه كيميائي عمل كے تحت فاسل (fossil)بن كر محفوظ رهے، تاكه وه بعد والوں كے لیے ايك نشاني بنے۔
يه تمام صفات كشتي ميں موجود تھيں۔ مزيد يه كه الله كي سنت التباس (الانعام، 6:9) كے مطابق، كشتي وه واحد چيز تھي جس كے ليے دابّه كي صورت ميں ايك ملتبس نام (disguised name) مل سكتا تھا۔ الله كي سنت كے مطابق، كشتي كا حواله كشتي كے نام سے دينا مطلوب نهيں تھا، بلكه اس كا حواله ايك ايسے بالواسطه نام كے ذريعه دينا مطلوب تھا جس كو صرف غور كركے سمجھا جاسكتا هو۔ اِس كے ليے دابه نهايت موزوں نام تھا، كيوں كه كشتي بھي پاني پر رينگتي هے اور دابّه كے لفظي معنى هيں رينگنے والا۔
قرآن ميں هے كه جب وقت آئے گا تو هم، لوگوں كے لیے زمين سے ايك دابه (رينگنے والا) نكاليں گے( 27:82)۔ يه الفاظ بهت خوبي كے ساتھ اصل واقعه كو بتاتے هيں۔ كيوں كه كشتي كے ساتھ جو واقعه پيش آيا، وه يه تھا كه اس كے اوپربرف كي بهت موٹي ته جم گئي۔ پھر گلوبل وارمنگ كے زمانے ميں برف پگھلنا شروع هوئي تو دھيرے دھيرے كشتي كھل كر سامنے آگئي۔ ’’رينگنے والي چيز‘‘كا زمين سے نكلنا بالكل لفظي طورپر اِس واقعه كي تصوير كشي كررها هے۔
قرآن ميں دابه كا ذكر جهاں آيا هے، وهاں صرف يه بتايا گيا هے كه دابه لوگوں سے ’’كلام‘‘ كرے گا، اور يه خبردے گا كه لوگوں نے الله كي آيتوں (signs) پر يقين نهيں كيا۔ قرآن ميں دابه كے بارے ميں اتنا هي بتايا گيا هے۔ قرآن ميں يه نهيں بتايا گيا هے كه لوگ دابه كي بات سنيں گے تو اس كے بعد تمام لوگ اس كو ماننے والے بن جائيں گے۔ قرآن سے يه تو ثابت هے كه دابه لوگوں سے ’’كلام‘‘ كرے گا، ليكن يه بات قرآن ميں نهيں هے كه لوگ دابه كے كلام كو سن كر اُس كے مومن بن جائيں گے۔
اِس سے مستنبط هوتا هے كه دابه (كشتي نوح) كا ظهور دوباره اُسي نوعيت كا هوگا جيسے كه نوح كے زمانے ميں هوا تھا۔ حضرت نوح كي دعوت وتبليغ سے ان كے زمانے كے بهت كم لوگ اُن پر ايمان لائے۔ اِسي طرح يهي معامله بعد كے زمانے ميں بھي پيش آئے گا، يعني دوسري بار بھي صرف كچھ لوگ اس سے اثر قبول كريں گے اور زياده لوگ اس كو نظر انداز كرديں گے۔
حقيقت يه هے كه بعد كے زمانے ميں دابه (كشتي نوح) كا ظهور صرف اعلان كے لیے هوگا۔ اس كے نتيجے ميں ايسا نهيں هوگا كه تمام لوگ اس كے مومن بن جائيں اور دنيا ميں كوئي خدا كا انكار كرنے والا باقي نه رهے۔