تاریخ کا مطالعہ
قرآن کے بیان (21:30) نیز سائنسی دریافت کے مطابق، کائنات کی تخلیق کا آغاز غالباً تیرہ بلین سال پہلے بگ بینگ سے ہوا۔اس کے بعد مختلف ادوار پیش آئے۔معلوم تاریخ کے مطابق سب سے پہلے مادی دنیا بنی، یعنی وہ دنیا جہاں ایک وسیع خلا کے اندر بے شمار عظیم کہکشائیں موجود ہیں۔ اس کے بعد وہ دور آیا جب کہ شمسی نظام (solar system) بنا، اور پھر ایک تدریجی عمل کے بعد زمین وجود میں آئی، جہاں انسان کے لیے وہ تمام موافق انسانی اسباب موجود ہیں، جن کے مجموعے کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہا جاتا ہے۔
اس کے بعد وہ وقت آیا جب کہ انسان کی تخلیق ہوئی، اور اس کو زمین پرآباد کیا گیا۔اس کے بعد انسانی تاریخ بننےلگی۔پھر خدائی منصوبے کے مطابق پیغمبر آنا شروع ہوئے۔انھوں نے کوشش کی کہ انسانی تاریخ توحید کے رخ پر سفر کرے۔مگر عملاً یہ ہوا کہ صرف کچھ مستثنیٰ افراد نے پیغمبروں کی دعوت کو مانا۔ انسانی نسلوں کا قافلہ بڑی تعداد میں آزادی کے غلط استعمال کے نتیجے میں، غیر موحّدانہ راستے پر چل پڑا۔اسی کے ساتھ یہ ہوا کہ انسانی زندگی میںعملاً ملوکیت کا نظام قائم ہوگیا۔ملوکیت اور شرک، دونوں نے مل کرساری دنیا میں جبریت (religious persecution)کا نظام قائم کردیا۔اس طرح یہ ناممکن ہو گیا کہ توحید کے مشن کو پر امن طور پر چلایا جاسکے۔
اس کے بعد تقریباًچار ہزار سال پہلےپیغمبر ابراہیم کے ذریعے ایک نیا منصوبہ زیرِ عمل لایا گیا۔ اس منصوبے کو ڈیزرٹ تھراپی (desert therapy)کہا جاسکتا ہے۔اس عمل کے ذریعے عرب کے صحرائی ماحول میںدوہزار سال سے زیادہ مدت کے دوران ایک نئی نسل تیار کی گئی، جو آج کل کی زبان میںکنڈیشننگ سے محفوظ قوم تھی۔یہ وہی نسل ہے جس کو بنو اسماعیل کہا جاتا ہے۔
اس کے بعد ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اول میں پیغمبرِ اسلام کا ظہور ہوا۔ انھوں نے اس نسل کے منتخب افراد کے ذریعے ایک جاندار ٹیم تیار کی۔ اس ٹیم نے ایک انقلابی کام انجام دیا۔اس نے ایک عظیم جد و جہد کے ذریعے ایک ایسا انقلاب پیدا کیا، جس سے انسانی تاریخ میں ایک نیا دور شروع ہوا۔اس دور میں ایک نیا تاریخی پراسس (process)جاری ہوا، جس کا نقطۂ انتہا (culmination) وہ دور تھا،جو بیسویں صدی میں اپنی تکمیل تک پہنچا۔اس دور کو سائنسی تہذیب کا دور کہا جاتا ہے۔
یہ سائنسی تہذیب عملاً ایک مادی تہذیب بن گئی۔ مغربی قومیں اس تہذیب کی چمپئن تھیں۔اس تہذیب کے دوران مادی کلچر کو فروغ حاصل ہوا۔ مغربی قومیں، غالب قومیں بن گئیں۔ سیکولر طرزِ فکر، علم کے تمام شعبوں پر چھا گیا۔ یہ تہذیب اپنی حقیقت کے اعتبار سے سائنسی تہذیب تھی، لیکن اپنی عمومی تصویر کے اعتبار سے وہ مغربی تہذیب کہی جانے لگی۔
اس طرح بیسویں صدی میں عالمی سطح پر ایک ایسا دور وجود میں آیا، جو گویا مادی افکار کا ایک جنگل تھا۔یہ جنگل بظاہر پوری طرح ایک مادی جنگل تھا۔اس جنگل میں، اوّل تا آخر، سب کچھ مادیت کے رنگ میں رنگا ہوا تھا۔بظاہر اس کاکوئی تعلق نہ توحید سے تھا، اور نہ ربّانیت سے۔
تاہم تہذیب کے اس مادی جنگل میں ایک عظیم ربّانی عنصر موجود تھا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح درختوں کے جنگل میں شہدجیسی قیمتی چیز مخفی نکٹر (nectar) کی صورت میں موجود ہوتی ہے۔یعنی مادی تہذیب کے جنگل میں معرفت کا نکٹر۔ اب ضرورت اس بات كي ہے کہ مادی تہذیب کے جنگل سے معرفت کے اس نکٹر کو اکسٹریکٹ (extract) کیا جائے، اور پھر اس کی تدوین اور تنظیم کر کےخدا کے دین کا وہ فکری اظہار کیا جائے، جس کو قرآن میں اتمامِ نور ( 9:32؛ 61:8) کہا گیا ہے۔
دینِ خداوندی کے اعتبار سےاکیسویں صدی میں کرنے کا سب سےزیادہ مطلوب کام یہی ہے۔ یہ کام اپنی نوعیت کے اعتبار سے اتنا اہم ہے کہ اس کو حدیث میں تاریخ کی عظیم ترین شہادت (گواہی) کہا گیا ہے— هَذَا أَعْظَمُ النَّاسِ شَهَادَةً عِنْدَ رَبِّ الْعَالَمِينَ (صحیح مسلم، حديث نمبر 2938)۔
شہد کی مکھی جنگل کے اندر موجود نکٹر کنٹنٹ (nectar content) سے بے خبر ہو تو جنگل اس کو صرف جنگل کی صورت میں دکھائی دے گا۔ لیکن شہد کی مکھی جب جنگل میں موجود نکٹر کنٹنٹ کو جان لے تو جنگل اس کے لیے ایک نعمت کی دنیا بن جاتا ہے۔ یہی معاملہ جدید مادی تہذیب کا ہے۔ آپ اگر تہذیب کے اس مادی جنگل میں موجود معرفت کے اس نکٹرکنٹنٹ سے بے خبر ہوں، تو جدید تہذیب آپ کو صرف مادیت کاایک جنگل دکھائی دے گی۔ لیکن اگر آپ اس تہذیب کے اندر موجود معرفت کنٹنٹ (content)سے باخبر ہوجائیں، تو جدید تہذیب آپ کےلیے ربانی معرفت کاایک عظیم باغ بن جائے گی۔
اس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ جدید سائنس کی ترقی ، چرچ اور سائنسی تحقیق کی علاحدگی سے شروع ہوئی۔ اس بنا پر مغربی دنیا میں یہ تصور قائم ہوگیا کہ فریڈم، خیر مطلق (summum bonum) ہے۔یہ تسلیم کرلیا گیا کہ اختلافِ رائے (dissent) انسان کا ناقابلِ تنسیخ حق (right) ہے۔یہ ایک بے حد اہم فیصلہ تھا۔ اس کی بنا پر پہلی بار تاریخ میں ایسا ہوا کہ آزادیٔ رائے (freedom of expression) ایک مسلمہ انسانی حق قرار پایا۔
مذہب کے اعتبار سے یہ ایک بے حد اہم تبدیلی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تاریخ میں پہلی بار مذہبی آزادی (religious freedom) انسان کا ایک مسلّمه حق قرار پائی۔ اب یہ ممکن ہوگیا کہ مذہب کے معاملے میں ہر قسم کی رکاوٹ یا مذہبی جبر (religious persecution)کا خاتمہ ہوجائے۔ اس انقلاب نے پہلی بار انسان کو یہ موقع دیا کہ وہ آزادانہ طور پر جس مذہب کو چاہے اختیار کرے، اور جس مذہب کی چاہے تبلیغ کرے۔ صرف ایک شرط کے ساتھ کہ وہ جو کچھ کرے، پرامن (peaceful) انداز میں کرے۔
مگر دورِ جدید کی یہ نعمت ایک مخفی نِکٹر کی صورت میں پائی جاتی تھی، کیوں کہ آزادی جب انسانی حقوق (human rights) میں سے ایک حق قرار پایا تو یہ حق ہر ایک کے لیے تھا، وہ صرف اہلِ مذہب کے لیے نہیں تھا۔چنانچہ اس کے بعد یہ ہوا کہ ہر آدمی اپنی مرضی کے مطابق اپنی آزادی کا کھلااستعمال کرنے لگا۔ اس طرح عملاً یہ ہوا کہ آزادی کا ایک عظیم جنگل اُگ آیا، جس میں برہنگی (nudity) سے لے کرمذہب کی بے حرمتی (blasphemy) تک ہر منفی چیز موجود تھی۔ مگر اس جنگل کے اندر مذہبی آزادی کا نِکٹر بھی موجود ہے۔ اب ضرورت ہے کہ لوگوں کے اندر شہد کی مکھی والی حکمت موجود ہو،یعنی ناموافق جنگل کو نظر انداز کرتے ہوئےموافق نِکٹر دریافت کرکے اس کو استعمال کرنا۔