ہجرتِ مدینہ

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن توحید کا مشن تھا۔ یعنی شرک کی آئڈیالوجی کے بجائے دنیا میں  توحید کی آئڈیالوجی کو ظہور میں  لانا۔ آپ نے اپنا مشن 610 عیسوی میں  قدیم مکہ میں  شروع کیا۔ اس وقت مکہ میں  شرک کا کلچر تھا۔ مشرک سرداروں کو ہر اعتبار سے غلبہ کا مقام ملا ہوا تھا۔ تیرہ سال کی مخالفت کے بعد آخر کار انھوں نے رسول اللہ کوعملاً الٹی میٹم دے دیا کہ آپ اپنے ساتھیوں کو لے کر مکہ سے چلے جائیں، ورنہ ہم آپ کو قتل کردیں گے۔

پیغمبر اسلام کےلیے یہ ایک بحران (crisis)کا لمحہ تھا۔ مگر آپ نے رد عمل (reaction) کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔ بلکہ حالات کا بے لاگ جائزہ کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ آپ خاموشی سے مکہ چھوڑ دیں، اور یثرب چلے جائیں۔ جو کہ قدیم عرب کے تین بڑے شہروں میں  سے ایک تھا، اور مکہ سے تقریبا 500 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔پیغمبر اسلام نے جب مکہ کو چھوڑنےکا فیصلہ کیا۔ اس وقت آپ نےاپنے اصحاب سے ایک بات کہی تھی۔ یہ روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں  آئی ہے۔ صحیح البخاری (حدیث نمبر1871)اور صحیح مسلم (حدیث نمبر1382)کے مشترک الفاظ یہ ہیں:أمرت بقرية تأكل القرى، يقولون يثرب، وهي المدينة ۔ یعنی مجھے ایک بستی کا حکم دیا گیا ہے، جو بستیوں کو کھاجائے گی۔ لوگ اس کو یثرب کہتے ہیں، اور وہ مدینہ ہے۔

اس حدیثِ رسول پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں باعتبار معنی ہجرت مدینہ سے مراد مشن کی ری پلاننگ ہے۔ چنانچہ یہی ہوا۔ آپ نےمدینہ پہنچ کر مکہ والوں کے خلاف کسی قسم کی منفی روش اختیار نہیں کی۔ بلکہ مکہ والوں کے سلوک کو بھلا کر انتہائی مثبت انداز میں  اپنے مشن کی نئی منصوبہ بندی کی۔ تفصیل کے لیےملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتابیں،پیغمبر انقلاب ، مطالعه سيرت اور سیرت رسول۔

مثلا ً عرب میں  پھیلے ہوئے قبائل کی طرف کثرت سے دعوتی وفود بھیجنا ، عرب کے باہر ملوک و سلاطین کے نام دعوتی خطوط بھیجنا۔ قریش کی یک طرفہ شرطوں کو مانتے ہوئے ان سے امن کا معاہدہ کرنا، قریش نے یک طرفہ طور پر حملہ کرکے آپ کو جنگ میں  الجھانا چاہا، لیکن آپ نے دانش مندی کے ساتھ ان کو مینج کیا، اوران کے حملوں کو جھڑپ (skirmish) بنادیا، وغیرہ۔ یہ سب آپ نے اس لیے کیا تاکہ مشن کی ری پلاننگ کے لیے آپ نےجو عمل (process)جاری کیا تھا، وہ بلارکاوٹ جاری رہے۔

پیغمبر اسلام کی اپنے مشن کی یہ ری پلاننگ پوری طرح کامیاب رہی۔ ہجرت کے آٹھویں سال یہ معجزاتی واقعہ ہوا کہ مکہ میں  کسی جنگ کے بغیر آپ کو دوبارہ فاتحانہ داخلہ مل گیا۔ یہ واقعہ بھی اسی سلسلے کا ایک حصہ ہے کہ جب آپ کو مکہ پر غلبہ حاصل ہوگیا، اور مکہ کے سردار آپ کے پاس لائےگئے۔ یہ لوگ بین اقوامی اصطلاح کے مطابق جنگی مجرمین (prisoners of war) تھے۔ مگر آپ نے ان کے خلاف کوئی جوابی کارروائی نہیں کی، بلکہ یہ کہہ کر سب کو چھوڑ دیاکہ میں  وہی کہتا ہوں جو یوسف نے کہا: تم پر کوئی الزام نہیں ، اللہ تم کو معاف فرمائے، اور وہ بہت رحم کرنے والا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر وہ حرم سے نکلے گویا کہ وہ قبروں سے نکلے ہوں، پس وہ اسلام میں  داخل ہوگئے (أقول كما قال يوسف:لا تثريب عليكم اليوم يغفر الله لكم وهو أرحم الراحمين [12:92]. قال:فخرجوا كأنما نشروا من القبور فدخلوا في الإسلام )۔سنن الکبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر 18275

قدیم مکہ کے سردار یہ جانتے تھے کہ ان کا کیس ظلم کا کیس ہے۔ اس کے باوجود پیغمبر اسلام نے ان سب کو یک طرفہ طور پر معاف کردیا ۔ اس سلوک کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان سرداروں میں  ندامت کا جذبہ فطری طور پر پیدا ہوگیا، اور وہ پیغمبر اسلام کے ساتھی بن گئے۔ اس کے برعکس، اگر آپ ان سے انتقام کا معاملہ کرتے تو یقیناً ان کے اندر جوابی انتقام کا ذہن پیدا ہوتا۔ اس طرح دونوں فریقوں کے درمیان انتقام در انتقام (chain reaction) کا ماحول قائم ہوجاتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ قانون اسباب کے مطابق پیغمبر اسلام کا پرامن مشن اپنے پہلے ہی تجربے میں غیر ضروری مشکلات کا شکار ہوجاتا۔ مگر اس اعلیٰ سلوک کی بنا پر پیغمبر کا مشن بلاتوقف (non-stop) جاری رہا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom