حق کیا ہے
حق کیا ہے۔ حق اصلاً توحید کا دوسرا نام ہے۔ اس کے مقابلے میں جو چیز باطل ہے، وہ اصلاً شرک ہے۔ شرک یہ ہے کہ آدمی خالق کو چھوڑ کر مخلوقات کی پرستش کرنے لگے،یعنی فطرت کی پرستش (nature worship) ۔ خالق بظاہر دکھائی نہیں دیتا، لیکن مخلوق دکھائی دے رہی تھی۔ اس لیے انسان نے خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی پرستش شروع کردی۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: اور اس کی نشانیوں میں سے ہے رات اور دن اور سورج اور چاند۔ تم سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا، اگر تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو(41:37)۔
مظاہر فطرت (nature) دکھائی دینے والی چیزیں ہیں۔ خاص طور پر سورج، چاند اور ستارے انسان کو نمایاں نظر آتے تھے، ان کے بارے میں انسان کے اندر استعجاب (sense of awe) پیدا ہوا۔ اس استعجاب کے تحت انسان نے ان کو برتر سمجھ کر پوجنا شروع کردیا۔ اس طرح قدیم زمانے میں مظاہر فطرت کو معبود مان کر ان کی پرستش کا کلچر دنیا میں رائج ہوا۔ یہ صورت حال پوری تاریخ میں برابر جاری رہی۔ خدا کے پیغمبر مسلسل طور پر خدا کی طرف سے یہ پیغام لے کر آئے کہ مخلوق کو چھوڑو، اور خالق کی عبادت کرو۔ مگر انسان ایسا نہ کرسکا۔ اسلام نے خالق کی پرستش کے اس کلچر کا آغاز کیا، اوراس کے بعد ماڈرن سائنس نےاس عمل کی تکمیل کی۔ماڈرن سائنس نے مشاہداتی سطح پر مظاہر فطرت کو معبودیت کے مقام سے ہٹا کر مخلوق کے مقام پر پہنچادیا ۔
یہ عمل سترھویں صدی عیسوی میں اٹلی کے سائنسداں گلیلیو گلیلی (Galileo Galilei) کی ریسرچ کے ذریعہ شروع ہوا، جب کہ گلیلیو گلیلی نےمشاہداتی بنیاد پر یہ ثابت کیا کہ زمین شمسی نظام کا سینٹر نہیں ہے، بلکہ وہ سورج کا ایک سیارہ (satellite) ہے۔ اس کے بعد 1969 میں نیل آرم اسٹرانگ (1930-2012ء) خلائی سفر کرکے چاند کی سطح پر پہنچا۔ اس نے بتایا کہ چاند کوئی روشن چیز نہیں، وہ بے نور پتھروں کا ملبہ ہے۔ اس کی روشنی اپنی نہیں، وہ سورج کے ریفلیکشن (reflection)سے چمکتا ہے۔ اس کے بعد انسان نے بڑی بڑی رصدگاہیں بنائیں، اور بڑے پیمانے پر ریسرچ کیا۔ اس کے ذریعہ حتمی طور پر یہ معلوم ہوگیا کہ ستارے جو آسمان میں نظر آتے ہیں، وہ سب کے سب آگ کے ٹکڑے ہیں، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
اس طرح سائنسی ریسرچ نے مشاہداتی بنیاد پر یہ بتایا کہ خلا (space) میں جتنے بھی اجسام (bodies) ہیں، وہ سب کے سب یا تو آگ کے انگارے ہیں، یا پتھر کے ٹکڑے، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ مظاہر فطرت کی معبودیت کا تصور تمام تر توہم پرستی (superstition) کی بنیاد پر قائم تھا۔ سائنس نے توہم پرستی کے دور کو مکمل طور پر ختم کردیا۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ مظاہر پرستی کا دور علمی طور پر ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔ یہی وہ بات ہے، جو قرآن میں آفاق کی آیات کے ذریعے بتائی گئی ہے۔
اسی طرح قرآن میں بتایا گیا ہے کہ مستقبل میں انفس کی نشانیوں کے ذریعہ حق کی تبیین ہوگی۔انفس سے مراد انسان ہے ۔ آیاتِ انسان سے کس طرح حق کی تبیین ہوتی ہے۔ اس کا اشارہ ایک حدیث میں ملتا ہے۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا:خلق الله آدم على صورته (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6227)۔ یعنی اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایک ایسا وجود ہے جس کا مطالعہ کرکے خالق کی پہچان حاصل ہوتی ہے۔ انسان کے اندر وہ تمام صلاحتیں چھوٹی سطح پر پائی جاتی ہیں، جو خالق کے اندر اعلیٰ سطح پر موجود ہیں۔ کائنات پوری کی پوری ایک مادی کائنات ہے۔ مگر کائنات کے اندر ایک ہستی ایسی پائی جاتی ہے، جس کو انسان کہا جاتاہے۔ انسان کے اندر دماغ (Mind) ہے، انسان دیکھنے اور سننے کی صلاحیت رکھتاہے، وہ اپنے ارادے سے کام کرتا ہے، انسان واحد مخلوق ہے جس کے اندر میں (I) کا شعور پایا جاتاہے، وغیرہ۔ غالباً اسی حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ (75:14)۔ یعنی انسان اپنے وجود کو دریافت کرکے خالق کی دریافت تک پہنچ سکتا ہے۔مثال کے طور پر فرانسیسی فلسفی ڈیکارٹ (René Descartes) نے انسان کے وجود پر غور کیا۔ اس نے کہا کہ میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں:
I think, therefore, I am
اس اصول کی توسیع کرتے ہوئے یہ کہنا درست ہوگا کہ میں ہوں اس لیے خدا بھی موجود ہے:
I am, therefore, God is