دورِ شمشیر کا خاتمہ
ترکی میں عثمانی خلافت (Ottoman Empire) 1299 ءمیں قائم ہوئی، اور 1924 ء میں عملاً وہ ختم ہوگئی۔ کمال اتاترک نے حقیقۃ ً عثمانی خلافت کا خاتمہ نہیں کیا تھا، بلکہ انھوں نے صرف اس کے خاتمہ کا اعلان کیا تھا۔ خلافت کے زمانے میں جو سیاسی کلچر رائج تھا، اُس کی نوعیت کیا تھی، اُس کا اندازہ اِس واقعے سے ہوتاہے کہ سلطان محمد فاتح (وفات1481 (کے وقت سے یہ طریقہ رائج تھا کہ جب بھی کوئی سلطان تخت نشیں ہوتا تو اُس وقت جامع ایوب (مقبرہ حضرت ابو ایوب انصاری) ميں اس کی تاج پوشی کی رسم ادا کی جاتی۔ یہاں شیخ الاسلام (مفتی اعظم قسطنطنیہ) عثمانی خاندان کے بانی سلطان عثمان خان (وفات1326 ) کی تاریخی تلوار اس کی کمر میں حمائل کرتے۔ یہ خصوصي رسم سلطان کی تاج پوشی کا لازمی حصہ تھی۔
دورِ خلافت کی اِس شاہانہ رسم سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُس دور میں ترکی کے اندر وہی کلچر رائج تھا، جو اُس وقت تمام دنیا میں رائج تھا، یعنی مبنی بر شمشیر کلچر۔ اس کلچر کی نمائندگی ایک قديم فارسی شعر میں اِس طرح کی گئی ہے — جو شمشیر زنی کرتا ہے، اُسی کے نام کا سکہ دنیا میں چلتا ہے:
ہر کہ شمشیر زند، سکّہ بنامش خوانند
انیسویں صدی کے نصف ثانی میں یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ زمانی تبدیلیوں کے نتیجے میں اب شمشیر کی روایتی طاقت ختم ہوچکی ہے، اس کی جگہ اب علم (سائنس) نے لے لی ہے۔ اب ایک ترمیم کے ساتھ مذکورہ فارسی شعر کو اِس طرح پڑھنا چاہئے — جو سائنس میں آگے بڑھتا ہے، اس کا دبدبہ دنیا میں قائم ہوتاہے:
ہر کہ سائنس زند، سکّہ بنامش خوانند!
کمال اتاترک نے ترکی میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد جو کچھ کیا، وہ اپنے عملی نشانے کے اعتبار سے یہی تھا، یعنی ترکی کو دورِ شمشیر سے نکال کر دورِ سائنس میں داخل کرنا۔ کمال اتاترک نے اپنی آئڈیالوجی کو خود اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کیا تھا:
Science is the most reliable guide in life. (EB. 2/257)
آج جو شخص ترکی کا سفر کرتاہے ، وہ واضح طورپر دیکھتاہے کہ قدیم ترکی کی تعمیر اگر ’’شمشیر‘‘کے ذریعے کی گئی تھی، تو جدید ترکی کی تعمیر ’’سائنس‘‘ کے ذریعے کی جارہی ہے۔ جدید ترکی کے ہرشعبے میں سائنسی ترقی کے آثار واضح طورپر دکھائی دے رہے ہیں۔
اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ قدیم دور میں اقتصادیات کی بنیاد زراعت پر ہوتی تھی۔ جدید دور میں اقتصادیات کی بنیاد صنعت پر قائم ہوگئی ہے۔ جدید ترکی نے اِس راز کو سمجھا اور صنعت کے تمام شعبوں میں ملک کو ترقی یافتہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ عرب ممالک کی بظاہر خوش حالی تمام تر قدرتی تیل کی بنیاد پر قائم ہے۔ ترکی بھی ایک خوش حال ملک ہے، لیکن اس کی خوش حالی کا انحصار برعکس طور پر صنعتی سرگرمیوں پر قائم ہے، نہ کہ تیل کے قدرتی وسائل پر۔ کیوں کہ تيل جيسي چيز وہاں موجود ہی نہیں۔ اِس قسم کی ترقی بلا سائنس اور جدید تعلیم کے بغیر نہیں ہوسکتی تھی۔