اسلام اور سلطان

اسلام کی تاریخ 610عیسوی میں شروع ہوئی۔ 632 عیسوی میںپیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم  کی وفات کے بعد اس دور کا آغاز ہوا جس کو عام طور پر خلافت کا دور کہا جاتا ہے۔ اس خلافت کی مدت تقریباًتیس ( 30)سال ہے۔ اس مدت میں چار صحابی خلیفہ مقرر ہوئے۔ لیکن چاروں خلفاء کا تقرر چار مختلف طریقوں (methods)سے ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ خلیفہ یا سیاسی قائد (political leader)کے تقرر کا معاملہ اسلام میں مبنی بر نص (based on text)معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ مبنی بر اجتہاد معاملہ ہے۔اس بنا پر اس کے لیے کوئی واحد معیاری ماڈل نہیں ۔ اس کا فیصلہ حالات کی بنیاد پر بذریعہ اجتہاد کیا جاتا ہے۔

خلافت کے بعد امیر معاویہ (وفات41ھ)کا دور شروع ہوا۔ وہ ایک صحابی تھے۔ ان کے زمانے میں حکومت کے لیے خاندانی ماڈل (dynasty) کو اختیار کرلیا گیا۔ اس وقت صحابہ بڑی تعداد میں موجود تھے۔ صحابہ نے اس خاندانی ماڈل کو عملاً قبول کرلیا۔ اس کے بعد اسلام کی پوری سیاسی تاریخ اسی ماڈل پر چلتی رہی۔ صحابہ، تابعین، تبع تابعین، محدثین، فقہاء، علماء سب کے سب اس ماڈل پر راضی ہوگئے۔ اس کے بعد اسلام کی تاریخ میں مختلف مسلم حکومتیں قائم ہوئیں۔ مثلا بنو امیہ کا دور، بنو عباس کا دور، عثمانی ایمپائر، مغل ایمپائر ، وغیرہ۔ یہ تمام اسی خاندانی ماڈل پر قائم ہوئے۔ اور دورِ اول کے وہ تمام لوگ جن کو اسلاف کہا جاتا ہے، ان سب نے اس ماڈل کو عملاًقبول کرلیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ یہ ماڈل تاریخی عمل کے نتیجے میں ایک مقبول ماڈل (historically accepted model) بن چکا تھا۔ یہی خاندانی ماڈل موجودہ زمانے کی عرب ریاستوں میں قائم ہے۔

مسلم علماء کے درمیان منہج سلف کو معیاری منہج مانا جاتا ہے۔ متقدمین یا اسلاف کا یہ منہج جس دور میں بنا، وہ پورا دور خاندانی ریاست (dynasty) کا دور تھا۔ اس دور کو تمام علمائے امت نے درست منہج کے طور پر قبول کرلیا ۔ کسی قابلِ ذکر عالم نے اس کے خلاف خروج (revolt) نہیں کیا۔ حتی کہ عباسی دور میں تمام علماء کے اجماع سے یہ مسئلہ بنا کہ مسلم حکمراں کے خلاف خروج کرنا حرام ہے۔ بطور حوالہ مشہور محدث امام نووی (وفات676: ھ) کا ایک قول یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ انھوں نے اس معاملے میں منہج سلف کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھاہے : وأما الخروج عليهم وقتالهم فحرام بإجماع المسلمين وإن كانوا فسقة ظالمين (شرح النووی علی صحیح مسلم، کتاب الامارۃ،12/229)۔ یعنی مسلم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنا اور ان سے قتال کرنا مسلمانوں کے اجماع کے تحت حرام ہے۔ خواہ وہ (کسی کے نزدیک) ظالم اور فاسق ہوں۔

اس زمانے میںیہ مسلم حکمراں کون تھے۔ یہ وہی تھے جو خاندانی حکومت (dynasty) کے اصول کے تحت حکمراں بنے تھے۔ موجودہ زمانے کی عرب ریاستیں اسی خاندانی نظام کا امتداد (continuation) ہیں۔ اس لیے علماءکا یہ متفقہ فتویٰ موجودہ عرب ریاستوں پر بھی عین اسی طرح اپلائی (apply) ہوگا ،جس طرح وہ اس سے پہلے کی مسلم ریاستوں پر اپلائی ہوتا ہے۔

علماء نے متفقہ طور پر خاندانی حکومت (dynasty) کو کیوں درست ماڈل کے طو رپر مان لیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اسلام میں حکومت کا اصل مقصد،قرآن کے مطابق، تمکین فی الارض (22:41) ہے ، نہ کہ کسی مخصوص ڈھانچہ کو قائم کرنا۔ تمکین سے مراد سیاسی استحکام (political stability) ہے۔سیاسی استحکام سے معتدل ماحول قائم ہوتا ہے، اور معتدل ماحول سے علمائے اسلام اور مصلحین امت کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ کسی رکاوٹ کے بغیر دین کے تمام غیر سیاسی شعبوں کو چلائیں۔ 

اس معاملے کی ایک حکمت یہ ہے کہ زندگی کا نظام، قانون اور حکومت پر کم اور روایات (traditions) پر زیادہ چلتا ہے۔ اور روایات کا معاملہ یہ ہے کہ وہ لمبے تاريخي پراسس کے بعد کسی سماج میں قائم ہوتی ہیں۔ درست طور پر کہا جاتا ہے کہ روایت ہمیشہ لمبی تاریخ کے بعد بنتی ہے:

It requires a lot of history to make a little tradition.

یہ کہنا صحیح ہوگا کہ حکومت کی حیثیت اگر سیاسی سلطنت (political empire)کی ہے تو روایات کی حیثیت غیر سیاسی سلطنت (non-political empire)کی ہے۔ روایات پر مبنی سلطنت اگر چہ ایک ناقابلِ مشاہدہ سلطنت (unseen empire) ہوتی ہے۔ لیکن کسی سماج کا نظام سب سے زیادہ بلکہ تقریباً 99 پرسنٹ عملاً اسی غیر سیاسی سلطنت کے تحت چلتا ہے۔ یہ غیر سیاسی سلطنت ہمیشہ وہ لوگ بناتے ہیں ،جوحکومت کے دائرے سے باہر مسلسل طور پر اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔

اسلام پر نبیوں کی آمد کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ اس لیے ضروری تھا کہ دین کا تسلسل قائم کرنے کے لیے مسلم سماج میں اسلام کا ایک روایاتی ڈھانچہ بنے۔ اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ رسالت کے زمانے میں مخالفت، بائیکاٹ، لڑائی اور ہجرت جیسے واقعات کی بنا پر حالات کا وہ تسلسل نہیں بنا جس میں روایات قائم ہوں۔ خلافت کے زمانے میں باہمی اختلافات بہت زیادہ ابھر آئے۔ یہاں تک کہ چار میں سے تین خلیفہ کو قتل کردیا گیا۔ اس لیے خلافت کے زمانے میں بھی دینی تسلسل کا مطلوب ماحول نہ بن سکا۔

اللہ اپنے منصوبہ کے مطابق،پورے عالم تخلیق کو مینج (manage) کر رہاہے۔مادی کائنات (physical world) اللہ کے مکمل کنٹرول کے تحت چل رہی ہے۔ انسان کو چوں کہ مقصد تخلیق کے تحت آزادی دی گئی ہے۔ اس لیے انسانی دنیا میں اللہ کا طریقہ مختلف هے، اور وہ هےانسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے انسانی تاریخ کو مطلوب انداز میں مینج کرنا۔ اس لیے اللہ کی مرضی ہوئی کہ ایسا سیاسی نظام بنے، جو مسلسل طور پربلا انقطاع چلنے والا ہو۔ اس کا اشارہ قرآن کی اس آیت میں پایا جاتا ہےإِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ(15:9)۔یعنی یہ یاد دہانی (قرآن) ہم ہی نے اتاری ہے ، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ حفاظت کے وسیع تر معنی میں یہاں پورے دینِ اسلام کی حفاظت شامل ہے۔دورِ رسالت کےتقریباً 30 سال کے بعد امت کے اندر خاندانی حکومت (dynasty) کا جو نظام قائم ہوا، وہ اسی خدائی انتظام کے تحت وقوع میں آیا۔

اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ خاندانی حکومت کے قیام کے بعد امت کے اندر مطلوب ماحول عملاًقائم ہوگیا۔ اس نظام کو امت نے قبول کرلیا۔ ایسا پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کے تحت ہوا۔ اس نظام کے تحت جوتسلسل قائم ہوا، اس کے زیر اثر دینی روایات بننا شروع ہوگئیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے اندر پورے عالم اسلام میںدین کا ایک روایتی ڈھانچہ عملاً قائم ہے۔ اس کی وجہ سے امت کے ہر فرد کے لیے یہ آسان ہوگیا ہے کہ وہ پیدا ہوتے ہی دین اسلام کو پہچان لے اور اس پر عمل کرنے لگے۔

اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم زمانے میں امیر معاویہ کے بعد جب خاندانی ریاست کا نظام قائم ہوا تو حالات میں استحکام پیدا ہوگیا۔ اور تمام دینی کام اسموتھ (smooth) طور پر انجام پانے لگے۔ مثلاً قرآن کی حفاظت ، حدیث کی جمع و تدوین، فقہ کی تدوین، علومِ اسلامی کی تدوین ، مسجد و مدرسے کانظام قائم ہونا، حج و عمرہ کا نظام، دین کی تبلیغ و اشاعت ، وغیرہ۔ یہ تمام کام امن اور اعتدال کے ماحول میں انجام پانے لگے۔ علوم اسلامی کا کتب خانہ پورا کا پورا اسی دور میں تیار ہوا۔ یہ کام اس سے پہلے عدم استحكام كي بنا پرکم ہو رہاتھا، اور استحكام كے بعد سے یہ نظام عملاًآج تک تقريباً اسی طرح جاری هے۔

امام مالک بن انس (وفات:  179ھ) اپنے استاد وهب ابن کیسان کے حوالے سے کہتے ہیں:إنه لا يصلح آخر هذه الأمة إلا ما أصلح أولها۔(مسند الموطا للجوہری، حدیث نمبر 783)۔ یعنی بلاشبہ اس امت کے دورِ آخر کی اصلاح بھی اسی طریقے کی پیروی سے ہوگی، جس طریقہ کی پیروی سے امت کے دورِ اول کی اصلاح ہوئی۔ اولِ امت (earlier ummah) سے مراد وہی دور ہے جس کو متقدمین کا دور یا اسلاف کا دورکہا جاتا ہے۔ اور دورِ اسلاف پورا کا پورا وہی ہے جو خاندانی ریاست کے دور میں وجود میں آیا۔ اس سے یہ بات مستنبط ہوتی ہے کہ دورِ اول میں جس سیاسی ماڈل کو تمام علماء کے اتفاقِ رائے سے قبول کیا گیا تھا، اور جس کے نتیجے میں امت کے تمام کام درست طور پر انجام پائے ، وہی ماڈل امت کے بعد کے دور کے لیے بھی درست ہے۔ اسی طریقہ کے مطابق بعد کے زمانے میں بھی امت کی اصلاح ممکن ہے۔

  صحابیٔ رسول عبد اللہ ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ پیغمبر ِ اسلام صلى الله عليه وسلم نے فرمایاالإسلام والسلطان أخوان توأمان (کنز العمال، حدیث نمبر14613)۔ یعنی اسلام اور سلطان دو جڑواں بھائی ہیں۔ایک اور روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: المُلك و الدین توأمان (کشف الخفاء، حدیث نمبر2329)۔یعنی مُلک اور دین دونوں جڑواں بھائی ہیں۔ ان روایتوں میں سلطان اور مُلک، دونوں کے معنی ایک ہیں،یعنی سیاسی اقتدار (political power)۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں سیاسی اقتدار کا رول اصلاً تائیدی رول (supporting role) ہے۔ سیاسی اقتدار کا کام یہ ہے کہ وہ اسلام کےلیے طاقت ور مددگار بنے، وہ اسلام کو شیلٹر (shelter)عطا کرے،تاکہ اس کے زیرِ سایہ تمام دینی کام اسموتھ (smooth) طور پر انجام پائیں۔

قرآن میں عدل یا قسط کے معاملے کو متعدی کے صیغے میں بیان نہیں کیا گیا ہے، بلکہ لازم کے صیغے میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی عدل کی پیروی کرو(5:8)،قسط پر قائم رہو ( 4:135) ۔ گویا سیاسی اقتدار کا کام عدل و قسط کی تنفیذ (enforcement) نہیں ہے۔ بلکہ وہ یہ ہے کہ وہ سماج میں معتدل حالات قائم کرے تاکہ لوگوں کو یہ موقع ملے کہ وہ کسی رکاوٹ کےبغیر اپنی زندگی میں عدل و قسط کے پیرو بن سکیں۔

سیاسی اقتدار کے اسی رول کی بنا پر اسلام میں سیاسی اقتدار کا کوئی ایک خارجی ماڈل نہیں ہے۔ سیاسی اقتدار کا کام یہ ہے کہ وہ اہل اسلام کو امن اور حفاظت عطا کرے۔ تاکہ دین کے تمام کام معتدل انداز میں انجام پائیں۔ یہی وجہ ہے کہ امت کے علماء نے متفقہ طور پر خاندانی حکومت (dynasty) کے ماڈل کو درست ماڈل کی حیثیت سے قبول کرلیا جو کہ واضح طور پرابتدائی خلافت کے ماڈل سے مختلف تھا۔ کیوں کہ انھوں نے دیکھا کہ اس ماڈل کے تحت اہل اسلام کو امن اور حفاظت کا مقصد بخوبی طور پر حاصل ہورہا ہے۔ اور تمام دینی کام بلا رکاوٹ انجام پارہے ہیں،جو کہ اس سے پہلے عملاً پورے طور پرحاصل نہ تھے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom