اسلام دورِ جديد ميں

اميرشكيب ارسلان (1869-1946ء) كي ايك كتاب هے جس كا نام هے:لماذا تأخر المسلمون وتقدّم غيرهم (مسلمان كيوں پيچھے هوگئے اور ان كے سوا دوسرے كيوں آگے هوگئے) يه كتاب 50 سال پهلے چھپي تھي ۔ اس کے بعد ميں نے ايك عربي مجله: رابطة العالم الاسلامی (اپريل 1985) ميںايك مضمون پڑھا۔ اس مضمون كا عنوان دوباره حسب ذيل الفاظ ميں قائم كياگيا تھا:

لما ذا تأخرنا وتقدم غيرنا

اس كا مطلب يه هے كه موجوده زمانه كے مسلمان پچھلي نصف صدي سے ايك هي سوال سے دوچار هيں، اور وه سوال يه هے كه هم جديد دور ميں دوسري قوموں سے كيوں پيچھے هوگئے، اور دوسري قوميں هم سے آگے كيوں نكل گئيں۔ مزيد عجيب بات يه هے كه اسي نصف صدي كے اندر جاپان ايٹمي بربادي كے كھنڈر سے ابھرا، اور ترقي كي انتها پر پهونچ گيا۔ چنانچه امريكه ميں ايك كتاب چھپي هے جس كا نام هے جاپان نمبر ايك:

Japan as Number One: Lessons for America by Ezra Vogel

موجوده زمانه ميں مسلمانوں كا يه انجام كسي موهوم سبب كي بنا پر نهيں هے، بلكه معلوم خدائي قانون كي بنا پر هے۔ اس دنيا كے ليے خدا كا قانون يه هے كه جو گروه اپنے آپ كو نفع بخش ثابت كرے اس كو دنيا ميں ترقي اور استحكام نصيب هو، اور جو گروه نفع بخشي كي صلاحيت كھو دے، اس كو هميشه كے ليے پيچھے دھكيل ديا جائے۔ قديم زمانه كے مسلمان اهلِ عالَم كے ليےنفع بخش بنے هوئے تھے، اس ليے قديم زمانه ميں انھيں عظمت حاصل هوئي۔ موجوده زمانه كے مسلمان بے نفع هوگئے۔ اس ليے موجوده زمانه ميں انھيں كوئي عظمت حاصل نه هوسكي۔عروج وزوال كا يه اصول قرآن كي حسبِ ذيل آيت ميں واضح طورپر موجود هے:

أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَابِيًا وَمِمَّا يُوقِدُونَ عَلَيْهِ فِي النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْيَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُهُ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ  (13:17)۔ یعنی اللہ نے آسمان سے پانی اتارا۔ پھر نالے اپنی اپنی مقدار کے موافق بہہ نکلے۔ پھر سیلاب نے ابھرتے جھاگ کو اٹھالیا اور اسی طرح کا جھاگ ان چیزوں میں  بھی ابھر آتا ہے جن کو لوگ زیور یا اسباب بنانے کے ليے آگ میں  پگھلاتے ہیں۔ اس طرح اللہ حق اور باطل کی مثال بیان کرتا ہے۔ پس جھاگ تو سوکھ کر جاتا رہتا ہے، اور جو چیز انسانوں کو نفع پہنچانے والی ہے، وہ زمین میں  ٹھہر جاتی ہے۔ اللہ اسی طرح مثالیں بیان کرتا ہے۔

اس آيت سے معلوم هوتا هے كه اس دنيا كے ليے الله تعالي كا قانون كياهے۔ وه قانون يه هے كه جو گروه اپنے آپ كو نفع بخش ثابت كرے اس كو دنيا ميں بقا اور استحكام ملے، اور جو گروه اپني نفع بخشي كھو دے وه يهاں بے قيمت هو كر ره جائے۔

اس عالمي قانون كو ايك طرف كتابِ الٰہی ميں لفظي طور پر بيان كياگيا هے۔ دوسري طرف مادي دنيا ميں اس كا عملي مظاهره كيا جارها هے۔ سورهٔ رعد كي مذكوره آيت ميں اس نوعيت كي دو مثاليں دي گئي هيں۔ ايك مثال بارش كي هے۔ بارش هوتي هے اور اس سے نالے بھرتے هيں تو جھاگ اوپر دكھائي دينے لگتا هے۔ مگر جلد هي ايسا هوتا هے كه جھاگ تو هوا ميں اڑ جاتا هے اور جو چيز اس ميں نفع بخش هے وه باقي رهتي هے، يعني پاني۔

دوسري مثال دھات كي هے۔ دھات کو جب آگ پر پگھلایا جاتا ہے، تو ابتداء ً اس كا ميل كچيل اوپر دكھائي دينے لگتا هے۔ مگر بهت جلد يه وقتي منظر ختم هوجاتا هے اور جو اصل قيمتي دھات هے وه اپني جگه باقي ره جاتي هے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom