خلاصۂ کلام

دور جدید میں  امت مسلمہ کا مسئلہ، اس کے احیاء کا مسئلہ تھا۔ اس مقصد کے لیے مسلم جدو جہد کی تاریخ غالباً 1799 سے شروع ہوتی ہے جب کہ میسور کے سلطان ٹیپو برٹش فوج سے لڑتے ہوئے ہلاک ہوگئے۔ یہ جدو جہد اکیسویں صدی میں  بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ مگر جان و مال کی بے شمار قربانیوں کے باوجود نتیجہ کاؤنٹر پروڈکٹيو (counter-productive) ثابت ہوا۔ یعنی فائدہ تو کچھ نہیں ہوا، البتہ نقصان میں  مزید اضافہ ہوگیا۔ اس ناکام تجربے کا تقاضا یہ ہے کہ اب مسلمان توبۂ جمیع (النور،24:31) کا طریقہ اختیار کریں، یعنی یوٹرن (U-Turn)کا طریقہ۔ وہ اپنی کوششوں کا دوبارہ جائزہ (re-assessment) ليں، اور پھر اپنے عمل کی ری پلاننگ (re-planning) کریں۔

مسلمانوں کی موجودہ حالت یہ ہے کہ وہ اپنے ثابت شدہ ناکام تجربوں کو دوبارہ نئے نئے نام کے ساتھ دہرا رہے ہیں۔ مثلا ًمغرب میں  رہنےوالے مسلمانوں کا اسلاموفوبیاکا نظریہ، مصر میں  الاخوان المسلمون کی اسٹریٹ ایکٹوزم، فلسطین والوں کی خودکش بمباری (suicide bombing)، پاکستان کی پراکسی وار (proxy war) ، کشمیریوں کا پتھر مارنا (stone pelting)، انڈیا کے مسلمانوں کی احتجاجی صحافت (protestant journalism)، ایران کی اسلام دشمنوں کی دریافت، افغانستان کا طالبانائزیشن (talibanization)، وغیرہ۔ یہ سب ناکام تجربات کو بے فائدہ طور پر دہرانے کے سوا اور کچھ نہیں:

It is a futile repetition of a failed strategy.

امت کا نیا مستقبل صرف نئی اور مثبت بنیاد پر کی ہوئی منصوبہ بندی کے ذریعہ بنایا جاسکتا ہے، اور نئی منصوبہ بندی کا پراسس (process) صرف اس اعتراف کے بعد شروع ہوتا ہے کہ اب تک ہم غلطی پر تھے (we were wrong)۔غلطی کو مانے بغیر نئے مستقبل کی بات کرنا، ایسا ہے جیسے پودا لگائے بغیر ہرے بھرے باغ کا انتظار کرنا ۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom