ایمرجنس آف اسلام

جدید دور ایک مؤید اسلام دور ہے۔ یہ دور اگرچہ عام طور پر مغرب کی طرف منسوب ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پوری انسانیت کی مجموعی کوشش سے یہ دور ظہور میں  آیا ہے۔ تاہم مغربی قوموں کا حصہ اس دَور کو لانے میں  سب سے زیادہ ہے۔ دوسری قومیں  اگر اس عمل (process) کا حصہ ہیں، تو مغربی دنیا اس کے نقطۂ انتہا کا مقام ۔

یہ دور جس کا نمایاں پہلو جدید تہذیب (modern civilization) ہے، اس نے قدیم روایتی دور کو یکسر بدل دیا ہے۔ یہ ہر اعتبار سے ایک نیا دور ہے۔ یہ وہی دور ہے جس کی پیشین گوئی پیغمبر اسلام نے اپنے زمانے میں  واضح طور پر کردی تھی۔ اس سلسلے میں  ایک حدیث مختلف کتابوں میں  آئی ہے۔ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: إن الله عز وجل ليؤيد الإسلام برجال ما هم من أهله (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر14640)۔ بے شک اللہ عز و جل اسلام کی تائید ان لوگوں کے ذریعہ کرے گا، جو اہل اسلام میں  سے نہ ہوں گے۔

اصل یہ ہے کہ اسلام کی تحریک پچھلے زمانے میں  روایتی بنیاد پر چلتی تھی۔ لیکن فطرت (nature) کےاندر خالق نے اپنے عظیم کلمات چھپا دیے تھے۔ خالق کو مطلوب تھا کہ یہ کلمات دریافت کیے جائیں، اور ان کو کتابوں کی صورت میں  مدوّن کیا جائے۔ تاکہ اسلام کی صداقت کو مبرہن کرنے کے لیے سائنٹفک فریم ورک (scientific framework) حاصل ہو، اور اعلیٰ سطح پر دین خداوندی کی معرفت ممکن ہوجائے۔ جدید تہذیب کے بعد اکیسویں صدی میں  یہ امکان پوری طرح واقعہ بن چکا ہے۔یہی وہ واقعہ ہے جس کی پیشین گوئی قرآن میں  ان الفاظ میں کی گئی تھی: سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (41:53)۔ فطرت کے رازوں کی دریافت کے بعد یہ سب کچھ اب واقعہ بن چکا ہے۔

یہ دور امکانی طور پر ظہور اسلام کا دور ہے۔ یہ دور گلیلیو گلیلی (1564-1642)کی تحقیقات سے شروع ہوا، اور اب اسٹیفن ہاکنگ ( 1942-2018) کی تحقیقات کے ساتھ غالباً وہ اپنی تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دریافت کردہ حقائق کو لے کر خدا کے دین کو تبیینِ کامل کے درجے تک پہنچادیا جائے۔ اسی کے ساتھ کمیونی کیشن کے جدید ذرائع کو استعمال کرتے ہوئےخالق کے پیغام کو زمین کے ہر چھوٹے بڑے گھر میں  پہنچادیا جائے ۔جیسا کہ پیغمبر نے پیشین گوئی کی ہے:لا يبقى على ظهر الأرض بيت مدر، ولا وبر إلا أدخله الله كلمة الإسلام (مسند احمد، حدیث نمبر23814)۔

اسلام ہر دور میں  پیغمبروں کے ذریعہ ظاہر ہوتا رہا ہے۔ کوئی دور اس واقعہ سے خالی نہیں۔ لیکن اسلام کے ظہور کا ایک اور درجہ تھا، جس کو قرآن میں  تبیین حق (فصلت، 41:53)کے الفاظ میں  بیان کیا گیا ہے۔حدیث میں  ظہو ر اسلام کے اس واقعے کو شہادت اعظم (صحیح مسلم، حدیث نمبر2938) کے الفاظ میں  بیا ن کیا گیا ہے۔ اسلام کے اس اعلیٰ ظہور کے لیے اعلیٰ مواقع درکار تھے۔ ایک طرف معرفت رب کے دلائل اور دوسری طرف دعوت کے اعلیٰ مواقع ۔ یہ دونوں چیزیں  جدید سائنسی دور میں  اپنی کامل صورت میں  ظہور میں  آچکی ہیں۔ اب ایک ایسے گروہ کی ضرورت ہے جو ان مواقع کو پہچانے ، اور ان کو استعمال کرتے ہوئےاسلام کے اُس آخری ظہور کو واقعہ بنائے جس کو حدیث میں  شہادت اعظم (صحیح مسلم ، حدیث نمبر2938)کہاگیا ہے۔

اس نشانے کی تکمیل کے لیے تمام اسباب مہیا ہوچکےہیں۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ امت مسلمہ منفی سوچ سے باہر آئے، جس کو قرآن میں رُجز  کہا گیا ہے(74:5)۔جدید مواقع کو اسلام کے ظہور ِثانی کے لیے استعمال کرنا، انھیں لوگوں کے لیے ممکن ہے، جو پوری طرح منفی سوچ (negative thinking) سے پاک ہوں، اور اعلیٰ درجے کی مثبت سوچ (positive thinking) کے حامل بن چکے ہوں۔ یہ کام ایک انتہائی مثبت کام ہے، اور کامل درجے کی مثبت سوچ کی صفت رکھنے والے ہی اس کو انجام دے سکتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو دورِ جدید کو ایک مؤید اسلام دور کی حیثیت سے دریافت کریں، اور اپنے عمل کی ری پلاننگ کے تحت اس امکان کو واقعہ بنائیں۔    

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom