حفاظتِ قرآن
پچھلے زمانے میں انسانوں کی رہنمائی کے لیے جو پیغمبر آئے، وہ سب اپنے ساتھ خدا کی کتاب اور صحیفے لائے۔ مگر یہ کتابیں اور صحیفے بعد کو محفوظ نہ رہ سکے۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی بھی پیغمبر کے گرد اُس کے ساتھیوں کی کوئی مضبوط ٹیم اکٹھانہ ہوسکی۔ پیغمبرِ اسلام کے ساتھ استثنائی طورپر ایسا ہوا کہ آپ کو اپنے پیروؤں (followers)کی ایک مضبوط ٹیم حاصل ہوگئی۔یہ ٹیم قرآن کی حفاظت کی ضامن بن گئی۔
ایک مستشرق (orientalist) نے اِس معاملے کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد لکھا ہے کہ پیغمبرِ اسلام کی وفات کے فوراً بعد آپ کے اصحاب، حفاظتِ قرآن کے لیے سرگرم ہوگئے۔ انھوں نے اِس مقصد کے لیے تاریخ میں پہلی بار ڈبل چیکنگ سسٹم (double checking system) کا طریقہ اختیار کیا۔ یہ ایک ایسا طریقہ تھا جس کے بعد قرآن کی حفاظت میں کسی قسم کا احتمال سرے سے باقی نہیں رہتا۔
632 عیسوی میں مدینہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو اُس وقت ہزاروں کی تعداد میں ایسے اصحابِ رسول موجود تھے، جن کو پورا قرآن بخوبی طورپر یاد تھا۔ نیز یہ کہ پیغمبر اسلام کا طریقہ یہ تھا کہ جب بھی قرآن کا کوئی حصہ اترتا توآپ اُسی وقت اُس کو قدیم طرز کے کاغذ (قرطاس) پر لکھوا دیتے۔ مگر یہ سب ایک جگہ اکٹھا کتابی صورت میں نہ تھے۔ چنانچہ خلیفہ اول ابوبکر کے زمانے میں یہ کیا گیا کہ زید بن ثابت الانصاری (وفات 665 ء) کی قیادت میں ایک ٹیم بنائی گئی۔ اِس ٹیم نے قرآن کی تمام تحریروں کو اکھٹا کیا۔ اِس کے بعد انھوں نے یہ کیا کہ قرآن کے تحریری ذخیرے کا تقابل حافظے سے کیا، اور حافظے کا تقابل تحریری ذخیروں سے کیا۔ اِس ڈبل چیکنگ کے بعد انھوں نے قرآن کا ایک مستند نسخہ (authentic copy)لکھ کر تیار کیا۔ یہ نسخہ چوکور صورت میں تھا، اِس لیے اُس کو رَبعہ (square) کہاجاتاتھا۔ یہ رَبعہ، قرآن کا مستند نسخہ قرار پایا۔لوگوں نے اِس نسخے کی مزید نقلیں تیار کیں۔ اِس طرح وہ مسلم دنیا میں ہر طرف پھیل گیا۔)تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، راقم الحروف کی کتاب: عظمتِ قرآن(
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسلام مسلسل طورپر ایک زندہ موضوع بن گیا۔ اہلِ اسلام، ایشیا اور افریقہ کے درمیان ایک بڑے رقبے میں ہر جگہ پھیل گئے ۔
اِن لوگوں کی تقریر اور تحریر کا موضوع اسلام تھا۔ قرآن کی کتابت، قرآن کی تفسیر، حدیث کی تدوین، حدیث کی شرح، پیغمبر اسلام کی سیرت، اصحابِ رسول کے حالات، اسلام کی تاریخ، فقہ کی ترتیب وتدوین، وغیرہ۔ پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد سیکڑوں سال تک یہ موضوعات لاکھوں اہلِ اسلام کے درمیان تقریر اور تحریر کاموضوع بنے رہے۔ دعوت و تبلیغ کا کام قرآن ہی کے ذریعے کیا جاتا تھا، اِس لیے دعوت و تبلیغ کے دوران بھی مسلسل طورپر قرآن کو پڑھنے اور سنانے کا عمل جاری رہا۔ یہ ایک ڈبل حفاظت کا معاملہ تھا۔ اِس عمل کے دوران ایک طرف، قرآن اور حدیث کی حفاظت ہوئی اور اسی کے ساتھ عربی زبان ایک زندہ اور محفوظ زبان بنتی چلی گئی۔
یہ سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ اٹھارھویں صدی عیسوی میں پرنٹنگ پریس کا دور آگیا۔ فرانس کا حکمراں نپولین (وفات 1821ء) 1798ء میں مصر میں داخل ہوا۔ وہ اپنے ساتھ پرنٹنگ پریس بھی لے آیا۔ اِس سے پہلے کاغذ سازی کی صنعت 751 عیسوی میں سمرقند میں آچکی تھی۔ اِس طرح، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تقریباً ایک ہزار سال بعد قرآن اور علوم قرآن کی حفاظت پرنٹنگ پریس کے دور میں داخل ہوگئی۔ اب قرآن کے مطبوعہ نسخے دستیاب ہونے لگے۔ دورِ طباعت میں داخل ہونے کے بعد قرآن آخری طورپر ایک محفوظ کتاب بن گیا۔ اِس کے بعد قرآن میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔
ختمِ نبوت کے حق میں یہی سب سے بڑا ثبوت ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد استثنائی طورپر ایسے اسباب پیدا ہوئے، جو خدا کی کتاب کو محفوظ کرنے کے لیے یقینی تدبیر کی حیثیت رکھتے تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ تدبیر اپنے آخری انجام تک پہنچ گئی، یعنی قرآن کامل طورپر ایک محفوظ کتاب بن گیا، اور جب خدا کی ہدایت کتاب کی صورت میں محفوظ ہوجائے تو ایسی کتاب پیغمبر کا بدل بن جاتی ہے۔ اِس کے بعد کسی نئے پیغمبر کی آمد کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔