مستقبل کی تصدیق
قرآن ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اوّل میں اترا۔ اُس وقت قرآن میں یہ اعلان کیاگیا : سَنُرِيهِمْ ءَايَٰتِنَا فِى الْآفَاقِ وَفِىٓ أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُۥ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ شَهِيدٌ(فصلت،41:53)۔عن قریب، ہم اُن کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، آفاق میں بھی اور خود اُن کے اندر بھی، یہاں تک کہ اُن پر کھُل جائے گا کہ یہ حق ہے ۔
اِس اعلان کا مطلب یہ تھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے خدا نے جس صداقت کا اعلان کیا ہے، وہ ایک ابدی صداقت ہے۔ بعد کو آنے والی تاریخی تبدیلیاں اُس کو رد نہیں کریں گی، بلکہ وہ اس کی تصدیق کرتی چلی جائیں گی۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ اعلان پوری طرح سچا ثابت ہوا۔ ظہورِ اسلام کے بعد کے زمانے میں مختلف قسم کی تبدیلیاں ہوئیں اور پھر علومِ سائنس کا دور آیا، جوگویا کہ تاریخ کا سب سے بڑا فکری انقلاب تھا۔ مگر بعد کو پیش آنے والے اِن انقلابات نے دینِ محمدی کی جُزئی یا کُلّی طورپر تردید نہیں کی، بعد کے زمانے میں پیش آنے والے تمام واقعات دینِ محمدی کی صداقت کا ثبوت بنتے چلے گئے— اِس قسم کا استثنا (exception) لمبی تاریخ میں صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آیا۔ یہاں ہم اِس تاریخی واقعے کے بعض پہلوؤں کا ذکر کریں گے۔