عملی تقاضا
اسلام میں شورائی سیاست کا نظام اختیار کیا گیاہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں جمہوریت (democracy) کہا جاتا ہے۔ پیغمبراسلام کی وفات کے بعد اسی اصول کی بنیاد پر خلافت کا نظام قائم ہوا۔ مگر تقریباً تیس سال کے بعد لوگوں کو محسوس ہوا کہ خلافت کا نظام عملاً ورک (work) نہیں کررہا ہے۔ سیاست میں اصل چیز استحکام (stability) ہے۔ مگر خلافت کے نظام کے تحت استحکام کا یہ مقصد حاصل نہ ہوسکا۔ چناں چہ چوتھے خلیفہ علی ابن ابي طالب کے بعد مسلم دنیا میں خاندانی حکومت (dynasty) کا طریقہ رائج ہوگیا، اور بعد کی تمام صدیوں میں عملاً مسلمانوں کے درمیان یہی نظام رائج رہا۔
خاندانی بادشاہت کا نظام جب شروع ہوا، اس وقت صحابہ اور تابعین بڑی تعداد میں موجود تھے۔ اس کے بعد محدثین ، فقہا ء، اور علماء متقدمین کا دور آیا۔ ان تمام لوگوں نے عملاً اس سیاسی تبدیلی کو قبول کرلیا۔ اس کا سبب کیا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ اسلام میں سیاست کا اصل مقصود سماجی استحکام (social stability) ہے۔ یہ استحکام خلافت کے نظام کے تحت حاصل نہیں ہورہا تھا۔ لیکن خاندانی حکومت کے تحت وہ حاصل ہوگیا۔ اس لیے پریکٹکل وزڈم کے اصول پر اس کو قبول کرلیا گیا۔
یہ بھی ری پلاننگ کا ایک کیس تھا۔ اسلام کے پہلےدور میں خلافت کا نظام قائم کیا گیا۔ لیکن تجربے سے معلوم ہوا کہ خلافت کا نظام ورک (work) نہیں کررہا ہے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ پچھلی تاریخ کے نتیجے میں لوگوں کا یہ ذہن بن گیا تھا کہ حاکم کے بعد حاکم کی اولاد کو حقِ حکومت (right to rule)حاصل ہوتا ہے۔ اس وقت تک یہ رواج ختم نہیں ہوا تھا۔ اس لیے پریکٹکل وزڈم کا تقاضا تھا کہ خاندانی حکومت کے نظام کو اختیار کرلیا جائے۔ تاکہ کم از کم سیاسی استحکام (political stability) کا مقصد حاصل ہوجائے۔ اس لیے عملی سبب(practical reason)، نہ کہ نظری سبب (theoretical reason) کے تحت خاندانی سیاست کا نظام اختیار کر لیا گیا۔ یہ ری پلاننگ کی ایک مثال ہے ۔تاریخ کے تجربے نے ثابت کیا ہے کہ اس معاملے میں دورِ اول میں لیا ہوا ری پلاننگ کا فیصلہ باعتبارِ حقیقت بالکل درست تھا۔
ری پلاننگ کے معاملے کا تعلق اصول (principle) سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق طریق کار (method) سے ہے۔ طریقِ کار کبھی مطلق (absolute) نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کا تعین ہمیشہ عملی افادیت (pragmatism) کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ کی مشہور روایت ہے :ما خير رسول الله صلى الله عليه وسلم بين أمرين، أحدهما أيسر من الآخر، إلا اختار أيسرهما (صحیح مسلم ،حدیث نمبر 2327)۔ یعنی آپ کو جب بھی دو کاموں میں ایک اختیار کرنا ہوتا، جن میں سے ایک دوسرے سے آسان ہوتا، تو آپ ان دونوں میں سے آسان کام کو اختیار فرماتے۔ یہاں ایسر کا لفظی مطلب ہے آسان۔ یہاںآسان طریقہ سے مراد وہ طریقہ ہے جو با آسانی قابل عمل ہو۔یعنی وہ طریقہ جو کوئی نیا مسئلہ پیدا نہ کرے، جس پر غیر نزاعی (non-controversial)انداز میں عمل کرنا ممکن ہو۔
اس حدیث سے کامیاب منصوبہ بندی کا ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ وہ منصوبہ پوری طرح قابل عمل ہو۔ وہ کوئی نزاع پیدا کرنے والا نہ ہو۔ وہ ایک نتیجہ خیز طریقہ کار ہو۔ ایسا نہ ہو کہ کہنے میں تو وہ ایک خوبصورت بات معلوم ہو، لیکن جب اس کو عمل میں لایا جائے تو وہ صرف مسائل میں اضافہ کرنے کا سبب بن جائے۔حقیقت یہ ہے کہ پہلےمنصوبے میں اس تجربے کا موقع ہوتا ہے کہ کیا چیز قابل عمل (workable) ہے، اور کیا چیز قابل عمل نہیں۔اس لحاظ سے دوسرے منصوبے کا فائدہ یہ ہے کہ بے نتیجہ عمل سے اپنے کو بچایا جائے،ا ور صرف نتیجہ خیز پہلووں کو سامنے رکھ کر اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کی جائے۔ تاکہ پہلا منصوبہ اگر بے نتیجہ ثابت ہوا تھا تو دوسرا منصوبہ نتیجہ خیز ثابت ہو۔ جو مقصد اگر پہلے منصوبے میں نہیں ملا تھا تو اس کو دوسرے منصوبے کے تحت حاصل کر لیا جائے۔
اس کے مطابق یہ کہنا صحیح ہوگا کہ پہلے منصوبے کے وقت غلطی قابل معافی ہوسکتی ہے۔ لیکن دوسرے منصوبے کے وقت غلطی قابل معافی نہیں۔ اس اعتبار سے دوسرے منصوبے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اس کو شروع کیا جائے۔ غلطی کا کھلا اعتراف کیے بغیر دوسری منصوبہ بندی سرے سے منصوبہ بندی ہی نہیں، بلکہ وہ نقصان میں اضافہ کے ہم معنی ہے۔